دسمبر پیام ہے
اداسیوں کا۔ دسمبر پیغام ہے بے سکونی کا ۔۔
دسمبر تنہائیوں کا امین ہے ، دسمبر وسوسوں کا راہی ہے ۔
وہ دسمبر جو انسان کو تنہا کرتا ہے اے وسوسوں
میں مبتلا کر کے سوچوں کی دہلیز پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ ۔ دسمبر نام ہے رت جگوں کا ،
دسمبر پیام ہے انتظار کا ، دسمبر نام ہے نہ ختم ہونے والی طویل راتوں کا۔ ۔۔
دسمبر جو محرومی اور افسردگی بکھیرتا ہے ، دسمبر جو
انسان کو دنیا کی حقیقتوں سے آگاہ کر کے اسےٹکروں میں بکھیر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ دسمبر
نام ہے تکلیف و اذیت کا ۔۔
دسمبر جو انسان کو اگر مگر کی کیفیت میں مبتلا کرکے
اسے اردگرد کی ہر شے سے بیزار کرتا ہے۔دسمبر جو انسان کو خوابوں اور سرابوں میں
الجھاتا ہے۔۔دسمبر نام ہے بے یقینی کا۔۔
دسمبر جو فضا میں آسودگی بکھیرتا ہے، دسمبر جو ماحول کو
سرد کردیتا ہے ۔۔دسمبر نام ہے خامشی کا۔۔دسمبر پیام کائنات ہے کہ ہر شے کو زوال ہے۔
۔دسمبر ۔۔دسمبر نام ہے اختتام کا۔ ۔
لیکن درحقیقت مسئلا دسمبر کا نہیں انسان کی سوچ و فکر کا ہے جو دسمبر کو اس
انداز میں پیش کرتی ہیں ۔ بالخصوص جو نقشہ شاعر حضرات نے دسمبر کا تخلیق کیا ہے وہ ایک اچھے بھلے انسان کو بھی تنہائ اور
ادسیوں میں مبتلا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے کہ:
بکھرتے رابطوں کا ہے ،
بچھڑتے راستوں کا ہے
دسمبر نام ہے جس کا مہینہ
حادثوں کا ہے
وہی سب رت جگے ابرک ، وہی
تیرے گلے ابرک
کہ اُس کے بعد بھی ہر پل
اُسی کی وحشتوں کا ہے
اسی مناسبت سے دسمبر کے حوالے سے اردو شعراء نے جو کچھ کہا اور لکھا ہے اسے
یہاں بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ ۔
دسمبر کے حوالے سے شعراء کی تخلیقی صلاحیتوں کا مشاہدہ کریں اور ان کی اس شاعری سے لطف اندوز ہوں ۔ ۔
***
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں
ہونے والا
***
ہر
سِتم ایک دَم دِسمبر میں
جَم سے جاتے ہیں غم دِسمبر میں
سال بھر اِس لیے میں رویا ہُوں
دِل بھرے کم سے کم دِسمبر میں...
***
دسمبر
کی سردی ہے اس کے ہی جیسی
ذرا سا جو چھو لے بدن کانپتا ہے
امت شرما میت
یکم
جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
امیر قزلباش
***
سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں ہے دسمبر اکیلے
***
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
***
الاؤ بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
تیرا خیال میرے طاقچوں میں رہتا ہے
بچا کے خود کو گزرنا محال لگتا ہے
تمام شہر میرے راستوں میں رہتا ہے
***
یادوں
کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں
کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں
نامعلوم
***
دسمبر کی سرد راتوں میں اک
آتش داں کے پاس
گھنٹوں تنہا بیٹھنا، بجھتے شرارے دیکھنا
جب کبھی فرصت ملے تو گوشہ تنہائی میں
یاد ماضی کے پرانے گوشوارے دیکھنا
***
ارادہ
تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے
غلام محمد قاصر
***
پھر آ
گیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا
نامعلوم
***
یہ سال
بھی اداسیاں دے کر چلا گیا
تم سے ملے بغیر دسمبر چلا گیا
نامعلوم
***
اک پل
کا قرب ایک برس کا پھر انتظار
آئی ہے جنوری تو دسمبر چلا گیا
رخسار ناظم آبادی
***
دسمبر
کی شب آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا
نامعلوم
***
ہر
دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں
پھر سے آنکھوں میں ترے خواب نہ آنے لگ جائیں
ریحانہ روحی
***
علویؔ
یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا
سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں
محمد علوی
***
میں ایک
بوری میں لایا ہوں بھر کے مونگ پھلی
کسی کے ساتھ دسمبر کی رات کاٹنی ہے
عزیز فیصل
***
سامنے
آنکھوں کے پھر یخ بستہ منظر آئے گا
دھوپ جم جائے گی آنگن میں دسمبر آئے گا
سلطان اختر
***
مجھ سے
پوچھو کبھی تکمیل نہ ہونے کی چبھن
مجھ پے بیتے ہیں کئی سال دسمبر کے بغیر
محمد علی ظاہر
***
سرد
ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
منصور آفاق
***
سیفیؔ میرے اجلے اجلے کوٹ
پر
مل گیا کالک دسمبر دیکھ لے
منیر
سیفی
***
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گذر گیا
جو بات معتبر تھی،وہ سر سے گزر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اُتر گیا
***
وہ مجھ کو سونپ گیا فرقتیں دسمبر میں
درخت جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے
***
کسی کا جون کبھی ختم ہی
نہیں ہوتا
کسی کے پاس دسمبر قیام کرتا ہے
راگھویندر
دیویدی
***
ستاروں آسماں کو جگمگا دو
روشنی سے
دسمبر آج ملنے جا رہا ہے جنوری سے
بھاسکر
شکلا
***
ارمؔ نے اس کو ڈھونڈا ہے
نشیلی سرد راتوں میں
وہ آنکھوں سے رہا اوجھل دسمبر کے مہینے میں
ارم
زہرا
***
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
مری تنہائی اور میرا دسمبر
***
مرے دل میں دسمبر جم گیا
ہے
پگھل کر سال بھر بہتا رہے گا
انعم شہزادی
***
مراسم
برف میں دبنے نہ پائیں
قریب آؤ دسمبر آ رہا ہے
دنیش کمار
***
آخر میں دسمبر
کے حوالے سے ایک نظم اور ایک غزل ملاحظہ فرمائیں
امجد اسلام امجد کی نظم "آخری چند دن دسمبر کے"
بکھرتے رابطوں کا ہے ،
بچھڑتے راستوں کا ہے
دسمبر نام ہے جس کا مہینہ
حادثوں کا ہے
کہیں ہے آس کا بادل کہیں
یادوں کی بوندیں ہیں
مچلتی خواہشوں کا ہے ، یہ
موسم بارشوں کا ہے
وہی مے کش ہوائیں ہیں وہی
گم صم فضائیں ہیں
مری پُر امن دنیا میں یہ
موسم سازشوں کا ہے
پرانے عارضے سارے ، امڈ آئے
ہیں آنکھوں میں
یہ موسم ہے سرابوں کا یہ
موسم وسوسوں کا ہے
وہی سب رت جگے ابرک ، وہی
تیرے گلے ابرک
کہ اُس کے بعد بھی ہر پل
اُسی کی وحشتوں کا ہے
۔۔۔۔۔
اتباف ابرک