سادہ سی بات ہے کہ انسان کو جو چیز حاصل ہو اس کی وہ قدر نہیں کرتا ۔ ۔ یہی حساب کتاب ہمارے ملک عزیز میں آزادی کا بھی ہے ۔ ۔ اک آزاد ملک میں رہنے والے ، اپنی روز مرہ کے معمولات میں آزادی سے فیصلہ کرنے والے یہ بات کہاں جانیں کہ ٹیپو سلطان نے یہ بات کیوں کہی تھی کہ
"آزادی کا ایک دن غلامی کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔ ۔"
اگر آزادی کی قدر و قیمت جاننا چاہتے ہو تو محکوم قوموں سے پوچھ کر دیکھو ۔ ۔ جن کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر سانس تکلیف و پریشانی ،ذلت و رسوائی میں سالوں کے برابر گزرتا ہے ۔ ۔
آزادی کی قدر و منزلت اگر پوچھنی ہے تو کشمیر، فلسطین، شام، برما اور دیگر ظلم و بربریت کے ستائے ہوئے مظلوم مسلمانوں سے پوچھو ۔ جو موت سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ۔ ۔ آج بھی جب ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ہندوستان کی بربریت اور فلسطین میں اسرائیل کے ظلم و ستم دیکھتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہے، اور یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی آزادی ایک عظیم نعمت ہے۔
قارئین محترم !!
آزادی ایک عظیم نعمت ہے لیکن یہ نعمت پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیتا، آزادی تو دلوں کو پگھلا دینے والی قربانیوں کا خراج مانگتی ہے ۔ ۔ اور یہ جو آج ہم آزاد ملک اور آزاد فضا میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے گھروں میں بیٹھے آرام دہ بستر پر بیٹھے زندگی گزار رہے ہیں، اپنے مذہبی فرائض و عبادات اور اسلامی رسومات کو آزادی سے ادا کر رہے ہیں ۔ ۔ در حقیقت یہ سب ہمارے آباؤاجداد، مجاہدوں، اور شہیدوں کی قربانیوں ہی کی بدولت ہے۔ جنہوں نے اس وطنِ عزیز کے حصول کی خاطر جان ، مال ،اولاد ،عزت و آبرو ، تن من دھن سب کچھ قُربان کر دیا ۔ ۔
قارئین محترم!!
یہ وہ ملکِ پاکستان ہے جس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اینٹوں کی جگہ مسلمانوں کی ہڈیاں اور پانی کی جگہ لہو کا استعمال ہوا ہے۔
اور اس ملک کی قدر و منزلت کا صحیح اندازہ بھی وہی لگا سکتا ہے جس نے اس مملکت خداداد کی آزادی کی خاطر اپنے خاندان بہن، بھائی اور عزیز و اقارب قربان کیے ہوں ۔ ۔ جن کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کیے گئے ہوں ۔ جو ساری زندگی والدین کی شفقت کو ترستے رہے ہوں ۔ ۔ جن کی ماؤں بہنوں نے نہروں اور کنوؤں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا ہو ۔ ۔ ہاں بس وہی لوگ اس آزادی کی قدر کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کی قیمت ادا کی ہو ۔ ۔ باقی جنہیں یہ آزادی مفت میں ملی ہو ان کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں وہ لوگ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ کیسی آزادی ، کیسا وطن ، نہیں ہیں ہم آزاد نہیں چاہیے ایسی آزادی ۔ ۔ ایسے لوگوں کو فوری طور پر کشمیر و فلسطین بھیج دینا چاہیے تاکہ انہیں اس آزادی کی قدر و قیمت کا احساس ہو سکے ۔ کہ منقول ہے کہ
سمندر میں کچھ لوگوں کا گروہ کشتی میں سفر پر روانہ ہونے لگا تو راستے میں ایک شخص نے درخواست کی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو ۔ ۔ اس کی درخواست پر اسے بھی ساتھ لے لیا گیا ۔ ۔ سفر کا آغاز ہوا، ابھی کشتی سمندر میں تھوڑا ہی دور پہنچی کہ ساتھ آئے ہوئے اس شخص نے پانی کے خوف سے چیخنا چلانا شروع کردیا ۔ ۔
”ہائے میں مر گیا ۔ ۔ ہائے میں کہاں آگیا ۔ ۔ میں تو ڈوب جاؤں گا ۔ ۔ اتنا گہرا پانی ۔ ۔ یہ تو میں مصیبت میں پھنس گیا ۔ ۔ ہائے میری کم بختی کہ میں اس سفر پر روانہ ہوا ۔ ۔ ہائے مجھے بچاؤ“
اس کی چیخ و پکار نے تمام لوگوں کو بہت پریشان کیے رکھا ۔ ۔ لیکن وہ شخص تھا کہ چیخنے چلانے سے باز ہی نہیں آرہا تھا ۔ ۔ اتنے میں باقی لوگوں میں سے ایک عقلمند شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ اگر اسے خاموش کروانا چاہتے ہو تو اسے پکڑو اور سمندر کے پانی میں غوطہ دو ۔ ۔ کچھ دیر کی مخالفت کے بعد بالآخر باقی لوگ بھی مان گئے اور اس چیختے چلاتے شخص کو پانی میں دو چار غوطے دے دیے گئے ۔ ۔ وہ شخص جو ابھی کچھ دیر پہلے تک چیخنے چلانے میں مصروف تھا ۔ ۔ پانی میں غوطے کھانے کے بعد خاموش ہو گیا ۔ ۔ اور ایک کونے میں جا کر دبک کر بیٹھ گیا ۔ ۔ لوگوں نے شکر کے کلمات کہے اور اس عقلمند شخص کے پاس جا کر اس سے دریافت کیا کہ آپ نے ایسا کرنے کو کیوں کہا اور یہ اب آخر کیسے چپ کر گیا ۔ ۔ تو عقلمند شخص نے جواب دیا کہ ۔ ۔ یہ شخص پہلی بار سمندر میں سفر کو نکلا اور پانی کے خوف میں مبتلا ہو کر اسے کشتی کی اہمیت کا اندازہ تک نہیں رہا کہ کیسے یہ کشتی اسے محفوظ کیے ہوئے ہے ۔ ۔ اب جب کہ اسے پانی میں ڈبویا گیا تو اسے کشتی کی اہمیت ک اندازہ ہوگیا کہ جب تک کشتی میں ہوں تب تک محفوظ ہوں ۔ ۔
لہذا وہ لوگ جنہیں اس ملک کی اور حاصل کردہ آزادی کی کوئی قدر اور اہمیت نہیں انہیں بھی ذرا دو چار چکر ، کشمیر و فلسطین کے لگوائے جائیں تاکہ انہیں بھی اس ملک کی قدر و منزلت کا احساس ہو ۔ ۔
ویسے بھی بات ساری احساس اور اہمیت کی ہے جنہیں آزادی کی اہمیت کا احساس ہے وہ ان مشکل حالات میں بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور زندگی کی گزر بسر کرنے میں مصروف ہیں ۔ ۔ لیکن جنہیں احساس نہیں وہ فقط رونے دھونے اور چیخنے چلانے ہی میں مصروف ہیں ۔ ۔ جبکہ حالات دونوں قسم کے لوگوں کے لیے مشترک ہی ہیں ۔ ۔ وہ اقبال نے کہا تھا نا کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے ، کرگس کا جہاں اور
قارئین کرام !! آزادی ایک نعمت ضرور ہے اور اس نعمت کی قدر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم آزادی کے جشن کے نام پر بغیر سائلنسر کے موٹر سائیکل چلانے نکل پڑیں، پٹاخے پھوڑنے لگ پڑیں ، یا پاگلوں کی طرح باجے بجا کر دنیا والوں کا جینا حرام کرنے لگ جائیں ۔ ۔
اگر علامہ اقبال کو قوم کے ان کرتوتوں کا علم ہوتا تو وہ کبھی آزادی کا خواب ہی نہ دیکھتے؟ آخر یہ ہمارے نوجوان کس راہ پر نکل پڑے ہیں ۔ ۔ تعلیم اور فن سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ ۔ اور نہ کرنے والے کاموں کو کرنے لگ پڑے ہیں ۔ ۔ جن کا نتیجہ صرف اندھیرا ہے جبکہ ہمیں تو آنے والی نسلوں کے لیے بھی اجالا کرنا تھا ۔ ۔
بقول اقبال
میں نے کچھ خواب تمہارے لیے دیکھے تھے میاں
میرے ان خوابوں کا کچھ مول نہ پایا تم نے
میں نے سوچا تھا کہ شاہین بنو گے پیارے
چیل کووں سے ہے یارانہ لگایا تم نے 💔