عمران خان ایک بار پھر گرفتار
جناب والا !!
وہ کہتے ہیں نہ کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ ۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔ ۔
اب دیکھیں نا آج سے تقریباً پانچ سال قبل جب خان صاحب انہی دنوں بھر پور انتخابی مہم چلانے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تال سے تال ملانے کے بعد بالآخر ملک پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم بننے کی تیاریاں کر رہے تھے تب ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کچھ ہی سالوں بعد یہ سب ہو گا ۔ ۔ اور اتنا برا ہوگا ۔ ۔ لیکن قسمت کا لکھا تو آخر ہو کر رہتا ہے ۔ ۔
خان صاحب آج سے کچھ ماہ قبل مئی 2023 میں بھی گرفتار ہوچکے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ان کے چاہنے والوں اور پارٹی کارکنان نے ملک بھر میں احتجاج اور دھرنے دینے کا پروگرام بنایا ۔ ۔ عوامِ پاکستان ، خان صاحب کی محبت میں گھروں سے باہر نکل تو آئی لیکن یہ ایک بپھرے ہوئے ہجوم سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کر سکی ۔ ۔ لیڈرشپ کی شدید کمی اور غیر منظم ہونے کے سبب ان میں کچھ شر پسند عناصر بھی آ شامل ہوئے ۔ ۔ اور اس کے بعد جو ہنگامہ آرائی ، اور جو فسادات اس ملک میں ملک کے نام پر ہوئے اس پر چشم فلک بھی روئی اگرچہ نہ ہوگی لیکن افسردہ تو ضرور ہوئی ہوگی ۔ ۔ اس سب ہنگامہ آرائیوں کو اپوزیشن نے سانحہ سے تشبیہہ دی اور اسے سانحہ 9 مئی کے نام سے تاریخ کے اوراق کے لیے قلم بند کردیا گیا ۔ ۔
اپوزیشن نے خان صاحب کو نااہل کرنے کے حربے تراشے ۔ ۔ ان کے نام تک لینے پر میڈیا پر پابندی لگائی گئی ۔ ۔ ان کی رجسٹرڈ سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی سازش کی گئی ۔ ۔ حتی کہ اپوزیشن نے یہاں تک ماحول بنا دیا کہ قانونی طور پر بھی سانحے کا ذمہ دار چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو قرار دے دیا جاتا ، کہ اپوزیشن کے بقول یہ سب خان صاحب نے جان بوجھ کر اپنے کارکنان سے کروایا ۔ ۔ جبکہ خان صاحب تو سانحے کے وقت حوالات میں موجود تھے ۔ ۔ تو بھلا کیسے ایک شخص حوالات میں ہوتے ہوئے کارکنان کو ہنگامے اور فسادات کرنے کو اکسا سکتا ہے ۔ ۔
9 مئی کے دن جس طرح ایک منصوبے کو سانحہ بنانے کا کام سر انجام دیا گیا وہ قدرے افسوس ناک ہے ۔ ۔ لیکن جس طرح اس سانحے کو لے کر اپوزیشن نے شور شرابہ ، چیخ و پکار اور رونا دھونا مچایا وہ اس سے زیادہ افسوسناک اور دردناک ہے ۔ ۔ جبکہ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اپوزیشن کی چیخ و پکار بالکل اس گیڈر کی مانند ہے جو اپنی موت کو سامنے دیکھ کر چیختا چلاتا پھرتا ہے ۔ ۔
بہرحال پچھلے تین ماہ میں سانحہ 9 مئی سن سن کر آپ کے کان بھی ضرور پک ہی گئے ہوں گے ۔ ۔لہذا اسے سائڈ پر رکھیں بات کر رہے تھے خان صاحب کی گرفتاری پر ۔ ۔
تو جناب صورتحال کچھ یوں ہے کہ، عمران خان صاحب پر دائر توشہ خانہ کے مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے سیشن جج نے بڑی ہی اجلت میں فیصلہ سنایا ۔ ۔ گویا کوئی پرانی ذاتی دشمنی نکال رہے ہوں یا پھر کسی خصوصی آرڈر پر عمل کر رہے ہوں ۔ ۔ مشے کی بات یہ کہ موصوف کو اگلے روز لندان روانہ ہوںا تھا لہذا اجلت میں ایک گھنٹے کے اندر مقدمے کی سماعت ، گواہوں کے بیانات ، اور ثبوتوں کو اچھے سے پرکھ کر مقدمے کا فیصلہ بھی سنایا اور اگلے ہی روز ملک سے فرار ۔ ۔ معذرت ۔ ۔ ملک سے روانہ ہوگئے ۔ ۔
فیصلے کے مطابق خان صاحب کو تین سال قید کی سزا ، پانچ سال کی نا اہلی اور جرمانے کا سامنا کرنے پڑے گا ۔ ۔ اسلام آباد سے فیصلہ جاری ہوتے ہی لاہور میں خان صاحب کی رہائش سے انہی ں گرفتار کر لیا گیا ۔ ۔ اور ذرائع کے مطابق خان صاحب نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ ۔ نہ ہی پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور ورکرز نے وہ غلطیاں دہرائیں جو 9 مئی کے دن سرزد ہوئی تھیں ۔ ۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت بشمول شاہ محمود قریشی نے کارکنان کو صبر کا دامن تھامنے اور جذباتی اقدام سے دور رہنے کا پیغام دیا ۔ ۔
قانونی کارروائی اور دیگر پیچیدہ معاملات کے بعد بظاہر نظر یہی آرہا ہے کہ خان صاحب اس فیصلے سے تو بچ جائیں گے ۔ ۔ لیکن اعلی عدالتیں جو فیصلہ کریں گی وہ خان صاحب کے کیے ماننا انتہائی ضروری ہوں گے ۔ ۔ اس تمام صورتحال میں کہ جب انتخابات محض چند مہینوں کی دوری پر دکھائی دے رہے ہیں، خان صاحب کا نا اہل ہونا یا قید ہونا نہ صرف عمران خان کے لیے مشکل کا باعث ہوگا بلکہ پی ٹی آئی اور پاکستانی سیاست کے مستقبل کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہوگا ۔ ۔
ہاں مگر، ایک بات میں کوئی شبہ نہیں کہ خان صاحب کی خود کی کچھ غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے آج وہ اس مقام تک پہنچے ہیں وگرنہ حالات اس قدر سنگین کبھی نہ ہوتے ، نہ ان کے لیے نہ ہی ملکی سلامتی اور سیاست کے لیے ۔ ۔
بہرحال قارئین کرام، جو کچھ بھی آج کل اس ملک میں سیاست اور جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے وہ ناقابل بیان اور قابل شرمندگی ہے ۔ ۔ بہت سے انسانی ذہن اب یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ آخر جمہوی نظام اس ملک کے مفاد میں ہے بھی یا نہیں ۔ ۔ اس سوال کا جواب دینا تو مشکل ہے لیکن آئندہ کبھی جمہوری نظام اور یگر انظام کا تفصیلی جائزہ ضرور لیں گے کہ آخر ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہیے ۔ ۔