معزز قارئین کرام !!
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدقسمتی سے ماڈل ٹاؤن ، ساہیوال اور نقیب اللہ محسود جیسے سانحے آۓ روز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ کچھ سانحے زیادہ معروف اور زبان زد عام ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ صرف اخبار کی سرخیوں تک ہی محدود رہ جاتے ہیں ۔ ۔
ان تمام واقعات کے رونما ہونے کے بعد تقریباً ہر ایک پاکستانی کے دل میں اک خوف بیٹھ چکا ہے جسے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ محمد بلال خان نے کچھ یوں قلم بند کیا ہے کہ
مشتبہ مشکوک مبہم فرد کہہ کر مار دے
کیا خبر کب کون دہشتگرد کہہ کر مار دے
گویا یاشیخ اپنی اپنی دیکھ کے مصداق ہر شخص یہی سوچنے پر مجبور ہیں ، ہر شخص کو یہ خوف ستاۓ جا رہا ہے کہ کل کو کون ہمیں بھی مشکوک شخص قرار دے کر ۔ ۔ ۔ ۔ لاحول و لا قوة الا باللہ
بحرحال قارئین کرام
سوال یہ ہے کہ اس طرح کے سانحے رونما ہونے کے اسباب کیا ہیں محرکات کیا ہیں ، اس طرح کے سانحے کب تک رونما ہوتے رہیں گے اور سب سے ضروری یہ کہ آخر ان تمام واقعات کے بعد عوام الناس کو پولیس کے ادارے پر کوئ اعتبار یا بھروسہ رہے گا یا نہیں ۔ ۔
یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جو آج کلیقیناً ہر ایک پاکستانی کے ذہن و دماغ میں گردش کر رہے ہیں ، ان سوالات کے جواب کون اور کب دے گا یہ بھی ایک بڑا سوال ہے ۔ ۔
لیکن میرا مقصود فی الحال یہ بیان کرنا ہے کہ وہ ادارہ جو عوام کی حفاظت کے لیے بنایا گیا جسے عوام پولیس کے نام سے جانتی ہے اسی ادارے پر سے عوام کا اعتبار اٹھ چکا ہے لہذا حکام اعلی اس بات کا فوری نوٹس لیں اور عوام کے اس شبہات کو فوری ختم کریں ورنہ اس کا خمیازہ کس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے کہ اللہ کی امان ۔ ۔