اقبال کا فلسفہ آزادی

0


تقدیر کے قاضی کا یہ فتوہ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

قارئین محترم!

آزادی دنیا کی ایک عظیم ترین نعمت اور غلامی سخت ترین مصیبت ہے ۔ جس طرح ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے اسی طرح آزادی کا ایک سانس غلامی کے ہزار سانسوں سے بہتر ہے
آزادی فقط ایک لفظ نہیں زندگی کا افتخار ہے ، آزادی کسی ادبی تحریک کا نام نہیں بلکہ صبح حیات کا نکھار ہے ۔

قارئین محترم!
 خداوند کریم نے یہ فلسفہ آزادی ہمیں جس مرد حق کی زبان سے سمجھایا اسے دنیا اقبال حکیم الامت کے نام سے جانتی ہے ، ہاں وہی اقبال جو نرم دم گفتگو بھی تھا اور گرم دم جستجو بھی ،  جس کی نگاہ بھی بلند اور سخن بھی دل نواز تھا، جس کا انداز بھی دلبرانہ تھا ، جس کی صفات میں قہاری و غفاری بھی موجود تھی جس کی جان اس قدر پرسوز تھی کہ خدا نے اسے میر کارواں بنا کر امت کی رہنمائ فرمائ ، جس کے سینے کو خدا نے نور بصیرت سے روشن کر دیا جو کئ تاریک دلوں میں چراغ جلانے کا سبب بنا پس وہ جو کہتا تھا دلوں پہ اثر کرتا تھا گویا کہ وہ ایک نعمت خداوندی تھا جس نے امت مسلمہ کو آزادی کا فلسفہ دیا ، اور سمجھایا کہ بحیثیت قوم ہم اس غلط فہمی میں جی رہے ہیں کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں لہذا فرماتے ہیں کہ

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
سکھاتی نہیں مسلماں کو غلامی کے آداب

اقبال مزید فرماتے ہیں کہ حامیان اسلام کو قرآن و شریعت سے ہٹا کر دانستہ طور پر رمز و موسیقی اور بے معنی کاموں میں لگایا جارہا ہے تاکہ ان میں شیر سی بہادری اور اپنا حق چھین لینے کی جستجو و قوت ہی باقی نہ رہے ، لہذا طنزیہ طور پہ فرماتے ہیں کہ

بہتر ہے کہ ان شیروں کو سکھادو رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ

اس احساس کے دلانے کے بعد اقبال سمجھاتے ہیں کہ اگر آزادی کا حصول ممکن بنانا چاہتے ہو تو یہ بات ذہن نشین کرلو کہ آزادی کبھی بھیک کی صورت میں نہیں ملنی لہذا حصول آزادی کے لیے عملی اقدامات اٹھانا اشد ضروری ہیں،  کہ :

خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی
بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی

لہذا آزادی کے حصول کی خاطر ہر ایک فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، اسی اثناء میں فرزندان ملت سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

 قارئین کرام !
قدرت اقبال جیسے مرد قلندر کو پیدا ہی تاریخی کاموں کے لیے کیا کرتی ہے ، جب برصغیر پاک و ہند میں غلامی کے اندھیرے چھاۓ ہوۓ تھے فرزندان اسلام غفلت کی نیند سو رہے تھے ایسے میں اقبال کی آواز آزادی کا ترانہ بن کر گونجتی ہے اور مردہ دلوں کے لیے حیات نو کا مژدہ سناتی ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں ایمان و یقین کے چراغ روشن کرتی ہے انہیں اس بات پر یقین دلاتی ہے کہ

جب اس انگارہء خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

جناب والا!

علامہ اقبال فرزندان اسلام کو سمجھاتے ہیں کہ اگر غلامی سے جان چھڑوانا چاہتے ہو اگر غلامی سے آزادی تک کی منازل تہہ کرنا چاہتے ہو خود آگاہی اور خود شناسائ کے مرحلوں سے گزرنا چاہتے ہو تو اپنے اندر کچھ صفات پیدا کرو کہ

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

قارئین کرام !
اقبال کا فلسفہ آزادی ایک طویل داستان اور ایک جامع الکثیر فلسفہ ہے ، اقبال کا فلسفہ آزادی فقط جسمانی آزادی تک محدود نہیں بلکہ یہ فلسفہ بیک وقت کئ ایک جہتوں میں افکار کے دیپ جلا رہا ہے ،لہذا اقبال کا فلسفہ آزادی یہاں آکر ختم نہیں ہوتا بلکہ یہاں سے آگے کئ ایک  جہتوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ ۔

اقبال کے فلسفہ آزادی میں آزادی افکار بھی اکثر و بیشتر موضوع سخن رہی ہے ،  آزادی افکار سے مراد یہ ہے کہ انسان کو کسی مخصوص سوچ و فکر کے جبراً تابع نہ کرکے فکری آزادی دیکر آزاد چھوڑ دیا جاۓ
لیکن جناب والا ! اقبال نے اس آزادی افکار کی سختی سے تردید کی ہے اور اس کے نقصانات و ثمرات بتاۓ ہیں کہ جب انسان پر سے فکری پابندیاں ہٹا دی جائیں تو یہ ایک ایسا نظام ترتیب دیں گی جس میں ہر ایک اپنی مرضی کا مالک ہوگا اور کسی قانون و ادارے کا کسی شخص پر کوئ اختیار نہیں رہ جاۓ گا، اقبال فرماتے ہیں کہ ،

ہرسینہ نشیمن نہیں جبریل امین کا
ہر فکر نہیں ظاہر فردوس کا صیاد

اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد

گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

جناب والا !
اقبال کا فلسفہ آزادی اس قدر کثیر الجہات ہے کہ اس پر کلام کرتے ہوۓ شاید سالوں بیت جائیں لیکن یہ موضوع پھر بھی افکار کے دیپ کو روشن رکھے گا اقبال کا فلسفہ اور اقبال کا دیا ہوا سبق دونوں ہی بے مثال و باکمال ہیں بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اقبال کے فلسفے کو سمجھیں اور بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریاں پوری کریں

واۓ ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اور

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِدارا



Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top