10 رمضان المبارک 8 ہجری کو حضور رحمت عالم ﷺ مدینہ سے تقرىباً 10 ہزار کا لشکر اپنے ساتھ لیے مکہ کى طرف روانہ ہوئے اور مکہ سے کچھ دور ایک مقام ”مرُّالظَّھْران“ مىں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا، حضورِ پرنور ﷺ نے فوج کو حکم دیا کہ ہر مُجاہد اپنا الگ الگ چُولہا روشن کرے، اِدھر حضرت ابوسفیان (جو کہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اسی مقام پر آپہنچے اور دیکھا کہ میلوں دور تک آگ ہى آگ جل رہى ہے۔ یہاں پر انہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے دیکھا اور انہیں اپنے ساتھ سرکارِ دوعالَم ﷺ کی بارگاہ میں لے آئے۔ لیکن رسولُ اللہ ﷺ کی ذات اور ان کے عظیم کردار سے متاثر ہو کر حضرت ابو سفیان اور ان کے ساتھى کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگۓ ۔
اور اس دن چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ حضور سرور کونین ﷺ نے اپنے جانی دشمن اور اپنے عزیزوں کے قاتلوں کو بھی سرعام معافی دیتے ہوۓ ارشاد فرمایا کہ
🌹
”آج تم سے کوئ مواخذہ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو“
”جو شخص ہتھیار ڈال دے اس کے لئے اَمان ہے، جو اپنا دَروازہ بند کرلے، جو کعبہ مىں داخل ہوجائے اس کے لئے اَمان ہے اور جو شخص ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کے لیے بھی امان ہے“
اس وقت آپ ﷺ اپنى اونٹنى ”قَصوا“ پر سُوار تھے، سِیاہ رنگ کا عِمامہ سرِ اَقدس پر رونق افزا تھا، چاروں طرف مسلَّح لشکر حاضر تھا لیکن اس قدر جاہ و جلال کے باوجود سرکار دوعالَم ﷺ کى شانِ تواضُع کا عالَم یہ تھا کہ آپ سرجُھکائے سورۂ فَتْح کى تلاوت فرما رہے تھے ۔ ۔
اس واقعے کے پیش نظر شاعر فرماتے ہیں کہ
فتح مکہ کے دن سارے اعداۓ دین
نصرت مصطفیٰ ﷺ دیکھتے رہ گۓ 💕
اس عظیم الشان معافی کے دن پر کہ جب حضور جان عالم ﷺ نے بلا کسی تفریق کے تمام جانی دشمن اور اپنے عزیزوں کے قاتلوں تک کو سرعام معاف فرما دیا، لیکن گستاخ رسول ابن خطل کو اس دن بھی معافی نہ مل سکی اور حضور رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ جہاں ملے اسے قتل کردو اور یوں صحابہ کرام نے حضور کےحکم سے حرم کعبہ ہی میں اسے قتل کردیا گیا ۔
اس عظیم الشان فتح کے موقعے پر قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئ اور رب تعالی نے ارشاد فرمایا ۔
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(۸۱)
ترجمہ:
اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔
یہاں ہمارے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے مکہ تک کا فاصلہ تقریباً 500 کلومیٹر ہے اور حضور رحمت عالم ﷺ 10 رمضان کو مدینہ منورہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوۓ اور 20 رمضان کو حدود مکہ میں داخل ہو کر مکہ کی فتح کا اعلان فرمایا ، گویا کہ حضور ﷺ اور ان کے عظیم صحابہ نے سخت گرمی کے عالم میں 10 دن مسلسل روزے رکھتے ہوۓ اس سفر کو مکمل فرمایا جبکہ آج کل ہم ذرا سی گرمی اور کام کا بہانہ بنا کر روزہ ترک کردیتے ہیں ۔ لہذا اس میں ہمارے لیے یہ درس پنہاں ہے کہ اگرچہ حالات جیسے بھی ہوں ہمیں فرائض و واجبات کی پابندی ضرور بجا لانی چاہیے ۔
اس تاریخی فتح مکہ میں جہاں ہمیں اپنے دشمنوں کو معاف کرنے عفو درگزر پر عمل پیرا ہونے کا درس ملتا ہے وہیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا، اور گستاخ رسول ﷺ کی سزا فقط موت ہے ۔