فلسفہء تغیرات

0



وقت کی خاصیت ہے کہ یہ صدا ایک جیسا نہیں رہتا، اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے لیکن مزے دار بات یہ ہے کہ جس وقت, وقت بدلتا ہے ، اس وقت فقط وقت ہی نہیں بدلتا بلکہ وقت اپنے ساتھ ساتھ کائنات کی ہر شے کو تغیر و تبدیلی کا شکار بناتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ تغیر و تبدیلی اتنی واضح ہوا کرتی یے کہ ہم اس تبدیلی کے چشم دید گواہ بن جایا کرتے ہیں ، کبھی کبھی ہم اسے صرف محسوس ہی کر سکتے ہیں ۔


عروج و زوال ، رنج و الم ، احساسات و واقعات سبھی کچھ وقت کے تناظر میں بدلتے رہتے ہیں ، اتفاق کی بات یہ ہے کہ جب انسان افسردہ ہو تو خوبصورت چیزیں اور خوشگوار موسم بھی ہیچ دکھائ دیتے ہیں جبکہ انسان کے اندر کا موسم اگر خوشگوار ہو تو بظاہر تکلیف زدہ ماحول بھی لطف و شادمانی کا سرور دیا کرتا ہے ۔ اسی لیے شاید انور مسعود صاحب نے کہا تھا کہ


ان کے بغیر فصل بہاراں بھی بَرگ رِیز

وہ ساتھ بیٹھ جائیں تو رکشا بھی مَرسڈِیز


تغیر و تبدیلی فطرتِ کائنات میں سے ہے ، کائنات کی ہر شے ہر آن ، ہر لمحہ تغیر و تبدیلی میں مصروفِ عمل ہے ۔ اسی بات کو قدیم یونانی فلسفی ہراقلیطس نے بھی یوں بیان کیا کہ


There is Nothing permanent, except change -

کوئ چیز مستقل نہیں، سواۓ تبدیلی کے 


آپ اگر غور کریں تو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ، ہم نے موسم بدلتے دیکھے ، چاند کی اشکال اور حرکات و سکنات کو بدلتے دیکھا ، ہم نے سورج کی تپش میں تغیر دیکھا ، دن کو رات میں اور رات کو دن میں گم ہوتے دیکھا ، ہم نے لوگوں کو بدلتے دیکھا،  لوگوں کی خواہشات اور ترجیحات کو بدلتے دیکھا، اور تو اور ، ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ۔


 تغیر و تبدیلی کےبارے میں ہراقلیطس نے تو اس حد تک کہا کہ ۔

“No man ever steps in the same river twice. For it’s not the same river and he’s not the same man.”  - Heraclitus

” ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺩﻓﻌﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺮ ﺳﮑﺘﺎ“


کیونکہ اگلی مرتبہ جب وہ اس دریا میں اترے گا تو دریا کا بہتا پانی جس میں وہ اترا تھا وہ وہاں سے آگے بہہ چکا ہوگا ،  جس لمحے وہ دریا میں اترا تھا وہ لمحہ تبدیل ہوچکا ہوگا ۔ ۔ ۔اس پر مزید یہ کہ جن احساسات اور کیفیات کے ساتھ انسان اس وقت دریا میں اترا تھا وہ احساسات اور کیفیات بھی تبدیل ہوچکے ہوں گے  ۔ ۔ ہر بدلتی کیفیت کے ساتھ انسان ایک نۓ روپ میں ظاہر ہوتا ہے ، جب کیفیت بدلتی ہے تو انسان یکسر بدلتا ہے لہذا اگر دریا کا وہ پانی ، گزرے وقت کا وہ لمحہ اور انسانی کیفیات و احساسات جو انسان کی شناخت ہوا کرتی ہیں اگر وہی تبدیل ہو گۓ تو پھر کوئ بھی ایک شخص کسی ایک ہی دریا میں دو دفعہ واقعی نہیں اتر سکتا ۔ ۔

“No man ever steps in the same river twice. For it’s not the same river and he’s not the same man.” 


اب اگر دریا کو تشبیہی طور پر آسائش و آلام کے معنوں میں دیکھا جاۓ تو ہراقلیطس کے اس فلسفے کا نچوڑ یہ بنتا ہے کہ جس طرح ایک دریا میں ایک شخص دو دفعہ نہیں اتر سکتا ۔ اسی طرح کسی آسائش یا پریشانی میں ایک شخص دو دفعہ نہیں اتر سکتا ۔ ۔ لہذا آپ جن حالات سے بھی گزر رہے ہیں یہ ضرور یاد رکھیں کہ وقت گزر جاۓ گا ۔ ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے ارد گرد کا ماحول ، آپ کی کیفیات آپ کے احساسات سب بدل چکے ہوں گے ۔ لہذا اگر اچھا وقت میسر آۓ تو تکبر نہ کریں ، اور برا وقت آۓ تو شکوہ نہ کریں ۔ ۔ کیونکہ جس وقت ، وقت بدلے گا اس وقت صرف وقت نہیں بدلے گا بلکہ کائنات کی ہر شے بدل چکی ہوگی ۔ ۔

صبح کے تخت نشیں شام میں مجرم ٹھہرے

ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ۔ ۔


#ہمکلامیاں 

بلال ابن ابو البلال



Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top