حج کے فضائل اور بنیادی معلومات

0




حج اسلام کے بنیادی ترین ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ جو ہر صاحب استظاعت پر زندگی میں ایک بار کرنا فرض ہے ۔ حج کے لفظی معنی "ارادہ کرنا"،" زیارت کا قصد یا نیت کرنا"جبکہ اصطلاحی معنوں میں حج اس مقدس عبادت کو کہتے ہیں جو اسلامی سال کے مخصوص ایام میں زیارت بیت اللہ اور دیگر مناسک حج اکے ارادے سے شہر مکہ کی جانب سفر کرنے ، کعبۃاللہ کا طواف کرنے ،اورمیدان عرفات میں ٹھہرنے وغیرہ پر مشتمل ہے ۔

 


فضائلِ حج:

شریعت اسلامیہ میں تواتر کے ساتھ حج کی بے شمار فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔

 

ایک روایت میں  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنا۔

عرض کی گئی: پھر کون سا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔

عرض کی گئی کہ پھر کون سا ہے؟ فرمایا کہ برائیوں سے پاک حج۔"

 

ایک اور جگہ پر حضور رحمت عالمیان ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

"ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ اپنے درمیان گناہوں کا کفارہ ہیں اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے (یعنی ایسے حج والا شخص جنت میں جائے گا)"



حج کس پر کتنی بار فرض ہے ؟؟


قرآن کریم میں رب تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ۔

’’اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘

آل عمران، 3 : 97

 


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :


أيُّهَا النَّاسُ! قَدْ فَرَضَ اﷲُ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا

"اے لوگو! تم پر حج فرض قرار دیا گیا ہے لہٰذا حج کیا کرو"


اس پر ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر خاموش رہے یہاں تک کہ اس صحابی نے یہ سوال تین بار دہرایا۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


لَوْ قُلْتُ نَعَمْ، لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ.

’’اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو ہر سال حج واجب ہو جاتا اور تم سے یہ نہ ہو سکتا۔‘‘

) مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فرض الحج (

 


ایک اور حدیث مبارکہ میں حج کے ارادے سے سفر کرنے والے شخص کے راستے ہی میں مر جانے کیلیے بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:

"جو شخص حج کے لیے نکلا اور اسے موت آگئی تو قیامت تک اس کے لیے حج کا ثواب لکھا جاتا رہے گا۔"

المعجم الاوسط لطبرانی : 282




حج کے فرائض و واجبات:

حج کے فرائض:


·         احرام، کہ یہ شرط ہے۔

·         وقوفِ عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کے آفتاب ڈھلنے سے دسویں کی صبح صادق سے پیشتر تک کسی وقت عرفات میں ٹھہرنا۔

·         طواف زیارت کا اکثر حصہ، یعنی چارپھیرے پچھلی دونوں چیزیں یعنی وقوف و طواف رُکن ہیں۔

·         نیت۔

·         ترتیب یعنی پہلے احرام باندھنا پھر وقوف پھر طواف۔

·         ہر فرض کا اپنے وقت پر ہونا، یعنی وقوف اُس وقت ہونا جومذکورہوا اس کے بعد طواف اس کا وقت وقوف کے بعد سے آخر عمر تک ہے۔

·         مکان یعنی وقوف زمینِ عرفات میں ہونا سوا بطنِ عرنہ کے اور طواف کا مکان مسجدالحرام شریف ہے۔


 (درمختار، ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۰۴۷، ۱۰۴۸)

 

حج کے واجبات :

حج کے واجبات یہ ہیں:

·         میقات سے احرام باندھنا، یعنی میقات سے بغیر احرام کے نہ گزرنا ۔

·         صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا ، جسے سعی کہتے ہیں۔

·         سعی کو صفا سے شروع کرنا ۔

·         اگر عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا، سعی کا طواف معتدبہ کے بعد یعنی کم سے کم چار پھیروں کے بعد ہونا۔

·         دن میں وقوف کیا تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب ڈوب جائے خواہ آفتاب ڈھلتے ہی شروع کیا ہو ۔

·         وقوف میں رات کا کچھ حصہ آجانا۔

·         عرفات سے واپسی میں امام کی متابعت کرنا یعنی جب تک امام وہاں سے نہ نکلے خود بھی وہاں سے نہ چلے۔ہاں اگر امام نے وقت سے تاخیر کی تو اُسے امام کے پہلے چلا جانا جائز ہے۔

·         مزدلفہ میں ٹھہرنا۔

·         مغرب و عشا کی نماز کا وقت عشا میں مزدلفہ میں آکر پڑھنا۔

·         تینوں جمروں پر دسویں، گیارہویں، بارھویں تینوں دن کنکریاں مارنا یعنی دسویں کو صرف جمرۃ العقبہ پر اور گیارہویں بارھویں کو تینوں پر رَمی کرنا۔

·         جمرہ عقبہ کی رَمی پہلے دن حلق سے پہلے ہونا۔

·         ہر روز کی رَمی کا اسی دن ہونا۔

·         سر مونڈانا یا بال کٹوانا۔ اور اُس کاایام نحر اور حرم شریف میں ہونا اگرچہ منیٰ میں نہ ہو۔

·         حج ِِقران اور تمتع والے کو قربانی کرنا ۔

·         قربانی کا حرم اور ایامِ نحر میں ہونا۔

·         طوافِ افاضہ کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہونا۔ (عرفات سے واپسی کے بعد جو طواف کیا جاتا ہے اُس کانام طوافِ اِفاضہ ہے اور اُسے طوافِ زیارت بھی کہتے ہیں)۔

·         طواف حطیم کے باہر سے ہونا۔

·         داہنی طرف سے طواف کرنایعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کی بائیں جانب ہو۔

·         عذر نہ ہو تو پاؤں سے چل کر طواف کرنا، یہاں تک کہ اگرگھسٹتے ہوئے طواف کرنے کی منت مانی جب بھی طواف میں پاؤں سے چلنا لازم ہے اور طوافِ نفل اگر گھسٹتے ہوئے شروع کیا تو ہو جائے گا مگر افضل یہ ہے کہ چل کر طواف کرے۔

·         طواف کرنے میں نجاست حکمیہ سے پاک ہونا، یعنی جنب و بے وضو نہ ہونا،۔(اگر بے وضو یا جنابت میں طواف                     کیا تو اعادہ کرے)۔

·         طواف کرتے وقت ستر چھپا ہونا یعنی اگر ایک عضو کی چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کھلا رہا تو دَم واجب ہوگا اور چند جگہ سے کھلا رہا تو جمع کریں گے۔(نماز میں ستر کھلنے سے جہاں نماز فاسد ہوتی ہے یہاں دَم واجب ہوگا۔

·         طواف کے بعد دورکعت نماز پڑھنا، نہ پڑھی تو دَم واجب نہیں۔

·         کنکریاں پھینکنے اور ذبح اور سر مُنڈانے اور طواف میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں پھینکے پھر غیر مُفرِد قربانی کرے پھر سر منڈائے پھر طواف کرے۔

·         طواف صدر یعنی میقات سے باہر کے رہنے والوں کے لیے رخصت کا طواف کرنا۔ اگر حج کرنے والی حیض یا نفاس سے ہے اور طہارت سے پہلے قافلہ روانہ ہو جائے گا تو اس پر طوافِ رخصت نہیں۔

·         وقوف عرفہ کے بعد سر مُنڈانے تک جما ع نہ ہونا۔

·         احرام کے ممنوعات، مثلاً سِلا کپڑا پہننے اور مونھ یا سر چھپانے سے بچنا۔ 

 

 

حج : گناہوں سے نجات کابہترین ذریعہ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس نے االلہ پاک کی رضا کیلئے حج کیا اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہ کیا ہو وہ حج کر کے اس دن کی طرح گناہوں سے پاک لوٹے گا

جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا(پیدا کیا)تھا۔

 

اس حدیث سے جہاں حج کرنے والے کیلیے گناہوں سے پاک ہو جانے کی نوید ہے وہیں اس بات کیلیے خبردار بھی کیا جا رہا ہے کہ گناہوں کے خاتمے کیلیے صرف حج کرلینا ہی ضروری نہیں بلکہ صدقِ دل سے حج کرنا ضروری ہے اسی صورت حج کا فریضہ ادا ہو سکے گا۔ ہم میں سے کچھ تعداد حج تو ادا کرتی ہے مگر اللہ کی رضا کیلیے نہیں وہ زیارتِ کعبہ تو کرتی ہے مگر نیت خود کو برتر ظاہر کرنے کی ہوتی ہے۔ حج ادا کرنے تو جاتی ہے مگر  وہاں اپنی تصاویر بنانے میں مصروف ہو کر اور دیگر غلط لوازمات میں مبتلا ہو کر   اُس مقام مقدس کی بے ادبی کرتی اور اللہ پاک کے غضب کو دعوت دیتی ہے۔

ذرا غور کیجیے اگر ہمیں بھی  رب تعالی نے اس مقام مقدس و معطر پر جانے کا موقع دیا ،تو کیا ہماری بھی نیت کہیں صرف اپنی عزت افزائی کی تو نہیں۔اگر ایسا ہے تو ہمیں بھی اپنی نیتوں کا قبلہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سب کو اس مبارک بارگاہ کی بار بارباادب حاضری اور حج و عمرےکی سعادت عطا فرمائے ۔

 آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم  

 

Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top