ریاۓ جاہ و جلال و حشمت کہاں گیا وہ غرور شاہی
کہ ایک جھونکا اجاڑ ڈالے تیری خدائ کسے خبر تھی
قارئین محترم !
آج جس حوالے سے لکھنے کی جسارت کررہا ہوں یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور شرمناک ترین واقعہ ہے ۔ ۔ آج جس واقعے پر کلام کی ہمت کررہا ہوں اس گری ہوئ حرکت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ کرنا بھی بہت مشکل محسوس ہورہا ہے ۔ ۔
خداۓ لم یزل سے بس یہی دعا ہے کہ
"خدا عروج نہ بخشے کبھی کمینوں کو"
کیونکہ جب کمینے اور کم ظرف لوگ عروج پاجاتے ہیں تو اکثر اوقات اپنی اوقات ہی بھول جایا کرتے ہیں ۔ ۔ خود کو عرفا و اعلی اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں ذرا سی بات پر اخلاقیات اور انسانیت کی تمام حدود پار کرجاتے ہیں ۔ ۔ ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ احترام انسانیت کس بلا کا نام ہے انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ غیرت مندی اور شرم و حیا کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں وہ اتنے بے حس ہوجایا کرتے ہیں کہ غریب کی آہ و سسکیاں اور تڑپتی بلکتی چیخیں بھی ان کے ضمیر کو ملامت نہیں کرتیں ۔ ۔ ۔ انہیں بس اپنی طاقت و دولت کا گھمنڈ ہوتا ہے جو ان کو اخلاقیات سے گری ہوئ حرکات کرنے سے بھی نہیں روکتا لیکن وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں فرعون و نمرود بھی گزرے ہیں انہیں بھی اپنی دولت و طاقت پر انتہا کا گھمنڈ تھا یہی گھمنڈ جس کی بنا پر وہ یہ تک بھول گۓ کہ رب قہار کی پکڑ بہت سخت ہے لیکن کہاں گیا وہ گھمنڈ ؟؟ انہیں کے ساتھ ہمیشہ کی نیند سوگیا اور جہان والوں کے لیے عبرت کا نشان بن گیا ۔ ۔
قارئین کرام
دراصل کچھ روز قبل کا واقعہ ہے کہ گھوٹکی کے علاقے سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم پی اے کا الیکشن لڑنے والے نوجوان امیدوار افتخار احمد لنڈ جو عرصہ دراز سے خان صاحب کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچل رہے تھے ایک عجیب و غریب اور متنازع حرکت سرانجام دے گۓ ۔ ۔ ذرائع کے مطابق سفر کے دوران کسی معمولی بات پر اپنے ہی ڈرائیور سے منہ ماری کرنے لگے اور جب غصہ سے آگ بگولہ ہوۓ تو لوہے کا سریا اپنے ہی ڈرائیور کی شرم گاہ میں ڈال دیا ۔ ۔ جس کے نتیجے میں ڈرائیور آہ و سسکیاں لیتا بیچ راستے ٹرپتا بلکتا رہا ، موصوف خود وہاں سے رفوچکر ہوگۓ بعد ازاں ڈرائیور کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ کئ روز سے سختیاں اور تکالیف برداشت کرتے ہوۓ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ۔
ستم بالاۓ ستم یہ کہ حکام بالا تک جب خبر پہنچی تو کہا گیا کہ اک کمیٹی بنائیں گے جو معاملے کی تفتیش کرے گی ۔ ۔
قارئین محترم
ملک پاکستان میں کسی بھی مسئلے سے جلد اور باآسانی جان چھڑانی ہو تو کمیٹی یا جے آئ ٹی بنا دی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوۓ اک اور کمیٹی بنا دی گئ ہے ۔ ۔
باقی غریب اور مظلوم کا کیا ہے ۔ ۔ مظلوم تو پیدا ہی ظلم سہنے کے لیے ہوا ہے ظلم سہتا آیا ہے اور ظلم ہی سہتا رہے گا کیونکہ
کسی مظلوم کی آہ و فغاں کوئی نہیں سنتا
یہ بستی پتھروں کی ہے یہاں کوئی نہیں سنتا
ہمہ تن گوش ہیں سب اُس کے قصہ مسرت پر
میرا دل خون ہونے کا بیان کوئی نہیں سنتا
عدل کی بھیک لینے جا رہے ہو جس کے در پہ تم
وہاں سب لوگ بہرے ہیں وہاں کوئی نہیں سنتا
تہہ دل سے پُکار اپنے خدا کو حالت غم میں
کہ وہ اُس جا بھی سنتا ہے جہاں کوئی نہیں سنتا
بس مظلوم اگر کچھ کرسکتا ہے تو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں التجا اور شکایت کرسکتا ہے ۔ ۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ مظلوم کی بددعا سے بچو کہ مظلوم کی بددعا اور عرش کے درمیان کوئ پردہ حائل نہیں ہوتا ۔ ۔
لیکن یہ بات آج کے امراء اور خود کو معتبر سمجھنے والے حضرات بھلا بیٹھے ہیں لیکن انہیں یہ بات تو کم از کم یاد رہنی ہی چاہیے کہ
” ان بطش ربک لشدید ٥ “
” بے شک رب کی پکڑ بہت سخت ہے “
بے شک میرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے
ReplyDelete