احتساب احتساب آخر ہے کیا یہ احتساب
یہ احتساب کے الفاظ سنتے سنتے ہم نے لڑکپن اور پھر جوانی میں قدم رکھا یہی الفاظ سنتے سنتے ہم اپنے ادھیڑپن میں قدم رکھیں گے اور شاید یہی الفاظ سنتے سنتے ہم آخرت سدھار جائیں گے ۔ ۔
قارئین کرام
پاکستانی سیاست کا عروج لفظِ احتساب پر بڑا انحصار کرتا ہے ۔ ۔ جو شخص بھی وزارت عظمی کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے لفظِ احتساب اس کا تکیہ کلام بن جاتا ہے ۔ ۔ اس سے جب پوچھا جاۓ کہ میاں وزیراعظم بننے تو آگۓ یہ بتائیں تعلیم کتنی ہے تو جواب ملتا ہے :
” سب کا احتساب کروں گا ، گزشتہ حکومت ملک لوٹ کر کھا گئ سب کا احتساب کروں گا “
اگر ان سے پوچھا جاۓ کہ صاحب وزیراعظم بن کر خارجہ پالیسی کیا ترتیب دیں گے تو جواب ملتا ہے ” سب کا احتساب کروں گا ، گزشتہ حکومت ملک لوٹ کر کھا گئ سب کا احتساب کروں گا “
اگر موصوف سے پوچھا جاۓ کہ بھلا نماز پڑھتے ہیں تو بھی جواب یقیناً یہی ملنا ہے کہ
” سب کا احتساب کروں گا ، گزشتہ حکومت ملک لوٹ کر کھا گئ سب کا احتساب کروں گا “
بلکہ مجھے تو خوف ہے کہ روز محشر پروردگار عالم نے جب ان سے پوچھا کہ زندگی کیسے گزاری تو یہ وہاں بھی کہیں احتساب کا رونا لے کر ہی نہ بیٹھ جائیں ۔ ۔
بہرحال قارئین کرام آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج اچانک ایسی کیا آفت آن پڑی کہ احتساب کا تذکرہ لے بیٹھا ہوں ۔ ۔
تو دراصل آفت تو کوئ نہیں آئ بس یہ ہفتہء گرفتاری کا اثر ہے ۔ ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ کل سے لے کر اب تک فسادی و چور ٹولوں کی گرفتاری پر گرفتاری عمل میں آرہی ہے ، سب سے پہلے چوری میں پی ایچ ڈی ہولڈر زرداری صاحب ، پھر پی ٹی ایم کی رکن فساد کی پڑیا گلالئ اسماعیل اس کے بعد حمزہ شہباز اور اب بانی ایم کیو ایم الطاف حسین ۔ ۔ پے در پے اتنی ساری خوشیوں کے جھٹکے محسوس کیے تو دماغ میں اچانک سے ایک احتساب کی لال بتی جلنے لگ پڑی ہے اور ایک سوال بار بار پریشان کر رہا ہے کہ آخر یہ احتساب یہ حساب کتاب فقط اپوزیشن ہی کا کیوں ہوتا ہے ؟؟؟ حکومت وقت احتساب کے نرغے میں جیلوں کے چکر کیوں نہیں کاٹتی ؟؟؟؟ پرویز خٹک ، علیمہ خان اور علیم خان کا احتساب کون کرے گا ؟؟؟ نااہل رکن پی ٹی آئ جہانگیر ترین کا حساب کتاب کون لے گا ؟؟؟ اعظم سواتی اور زرتاج گل کی اوچھی حرکات کا حساب کتاب اور احتساب کون کرے گا ؟؟؟؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب نہ آج تک کوئ دے سکا ہے اور نہ ہی کوئ آئندہ یہ جسارت کرے گا ۔ ۔
کیونکہ
”یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا“
یہاں پہلے بھی یہی ہوتا آیا ہے کہ ہر صاحبِ اقتدار شخص اپنے مخالفین کا بھرپور انداز سے احتساب کیا کرتاہے اور اپنی سائڈ والوں کی حرکتوں سے نظریں چراتا رہتا ہے ۔ ۔ اور اب بھی یہی ہورہا ہے اور تب تک یہی ہوتا رہے گا جب تک نظام کے بجاۓ صرف چہرے ہی بدلتے رہیں گے ۔ ۔ ۔ لہذا اب اس فرسودہ نظام کو بدلنے کا وقت آچکا ہے ۔ ۔ اب ضرورت اس نظام کی ہے جس میں ایک عام آدمی بھی اٹھ کر خلیفہ وقت سے احتساب کا مطالبہ کرے اور اسی بزم میں خلیفہ وقت کا احتساب بھی مکمل ہوجاۓ ۔