خان صاحب کی حرکتیں | پھر نیا بلنڈر

0


قارئین کرام
ہمارے خان صاحب بھی بڑے ہی عجیب و غریب قسم کے آدمی ہیں ۔ ۔ کبھی کبھار تو بڑے بڑے بلنڈر کر گزرتے ہیں اور انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ میں کیا بول رہا ہوں کیا کر رہا ہوں یا کیا لکھ رہا ہوں ۔ ۔
جب بولنے کی بات آئ تو الیکشن سے قبل اتنے بڑے بڑے دعوے کیے کہ گویا ان سے بڑا تیس مار خان تو کوئ ہے ہی نہیں ۔ ۔ ۔ اقتدار میں آۓ تو انڈے مرغی ، کٹے اور بھینسیں بولتے رہے ۔ ۔ ۔ پورا پاکستان ہنستا رہا خان صاحب نے سبق نہیں سیکھا 

انٹرنیشنل فارم پر پاکستان کی نمائندگی کرنے گۓ وہاں جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملاتے رہے ۔ ۔ صحابہ کرام کے بارے میں منہ کھولا تو الفاظ کا چناؤ ایسا بیکار کیا کہ ہر مسالک کے علماء نے شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ۔ ۔ جب فلسفے کی جانب رخ ہوا تو کہا کہ جو بندہ یوٹرن نہ لے وہ لیڈر نہیں ہوتا لہذا ہٹلر اور نیپولین تو لیڈر ہی نہیں تھے ۔ ۔ ۔ غرض یہ کہ اگر ان کے زبانی بلنڈرز کی فہرست بنائ جاۓ تو شاید پوری کتاب ترتیب پاۓ ۔ ۔
اسی مناسبت سے ایک دفعہ ایک شدید قسم کے یوتھیے سے بحث ہوئ تو میں نے کہا کہ خان صاحب کو ہوش ہی نہیں ہوتا کہ کیا بول رہا ہوں ۔ ۔ ۔ تو وہ موصوف چڑ گۓ کہنے لگے خان جو بھی بولتا ہے ایک دم ٹکا کے بولتا ہے کچھ غلط نہیں بولتا ۔ ۔  میں نے پوچھا تو یہ جاپان اور جرمنی کی سرحدیں تو کہیں بھی آپس میں نہیں ملتیں خان صاحب تو انٹرنیشنل لیول پر ہماری قوم کی اجتماعی بے عزتی کروا چکے یہ بات کر کے اور پھر بھی تم کہتے ہو خان غلط نہیں بولتا ۔ ۔
معزز یوتھیے صاحب کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے تم نے نقشے میں دیکھا ہے ؟؟؟ ـ ـ ـ ـ  میں نے کہا جی ہاں بالکل دیکھا ہے دونوں ممالک کی آپس میں کہیں سرحدیں نہیں ملتیں  ۔ ۔ ۔ ۔ تو موصوف کہنے لگے ایسا کرنا کہ اب کی بار نقشے میں نہیں نشے میں دیکھنا سرحدیں ضرور ملیں گی ۔ ۔ خان صاحب نے اگر بولا ہے تو ضرور ملیں گی ۔ ۔ ۔

اس یوتھیے کی اس بات کے بعد تو اب مجھے بھی شک ہو چلا ہے کہ ہو نہ ہو یہ سب نشے ہی کا چکر ہے ۔ ۔

بہر حال یہ تو تھے بولنے والے بلنڈرز حرکتوں والے بلنڈرز کا تذکرہ کریں تو حالیہ شنگھائ کوپریشن آرگنائزیشن کی تقریب میں کی گئ حرکات سرفہرست رہیں گی ۔ ۔ ۔  تو جناب ہوا کچھ یوں کہ ہمارے وجیراعظم تقریب میں پہنچے تو تمام ممالک کے صدور اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر دوسرے آنے والے صدور اور ملکی نمائندگان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے لیکن خان صاحب پہنچے تو جاتے ہی کرسی پر بیٹھ گۓ گویا کہ ایک عرصہ دراز سے کبھی کرسی پر ہی نہ بیٹھے ہوں ۔ ۔ میٹنگ ہال میں ہر شخص ہر عاقل ہر ذی شعور بندہ کھڑا تھا ہمارے خان صاحب بیٹھے رہے ۔ ۔ ۔ پھر شاید انہیں کچھ عجیب محسوس ہوا ہوگا لہذا اٹھ کھڑے ہوۓ لیکن شاید ٹانگوں کو لقوہ مار گیا تھا لہذا پھر سے بیٹھ گۓ ۔ ۔ یوں جب تک باقی سب بیٹھ نہیں گۓ تب تک خان صاحب اسی طرح اٹھک بیٹھک کرتے رہے ۔ ۔ ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے بات شروع ہوتی ہے ۔ ۔

میٹنگ ختم ہوئ تو خان صاحب اٹھ کر ایسے بھاگے جیسے ہمارے ہاں شادیوں میں ” کھانا کھل گیا “کی آوز پر بھاگتے ہیں ۔ ۔
نہیں مطلب کوئ ادب ہوتا ہے کوئ تعظیم ہوتی ہے ۔ ۔ جو دوسرے ممالک کے صدور اور نمائندگان آگے آگے جارہے ہیں انہیں کراس کرکے آگے بھاگنے کی کیا لاجک بنتی ہے ۔ ۔ نہیں آپ کیا وہاں پرگدھوں کی ریس میں حصہ لینے گۓ تھے ۔ ۔ حد ہے بالکل ۔ ۔

اس سب کے بعد ہمارےسادگی پسند دو موریوں شدہ قمیض پہننے والے خان صاحب باقی صدور کے ہمراہ فوٹو سیشن کے لیے ہہنچے ۔ ۔ وہاں کہا گیا کہ اپنے چاہنے والوں کی طرف ہاتھ ہلائیں یوں آپ کی تصویر اتاری جاۓ گی ۔ ۔ سب مان گۓ لیکن خان صاحب نہیں مانے  سب نے ہاتھ ہوا میں لہراۓ لیکن خان صاحب گردن اوپر کر کے شاید کوئ چڑیا کا بچہ دیکھنے لگ پڑے ۔ ۔  چلو میں مان لیتا ہوں خان صاحب کو لگا ہوگا کہ میرا تو کوئ چاہنے والا ہی نہیں ہے ہاتھ کسے ہلاؤں تو بھائ تم فوٹوگرافر کا دل رکھنے کے لیے ہی ہاتھ ہلا لیتے ۔ ۔ آپ کی ان حرکتوں کی وجہ سے عالمی میڈیا میں ہماری اجتماعی بےعزتی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ وہ کیا کہتے ہیں  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں ! جگ ہنسائ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی وجہ سے ہماری جگ ہنسائ ہوتی ہے ۔ ۔


خیر اب آتے ہیں لکھنے والے بلنڈر پر ۔ ۔ جو کل ہی کی بات ہے ۔ ۔
ویسے تو خان صاحب لکھتے کم ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ کم ہی لکھتے ہیں وگرنہ آۓ روز عالمی میڈیا طعنے مار رہا ہوتا ۔ ۔

کل خان صاحب کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک قول منظر عام پر آیا جو مشہور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کا تھا اور ہمارے خان صاحب نے اس ٹوئٹ کے ساتھ لکھا ہمیں ”خلیل جبران“ کے اس قول سے سبق سیکھنا چاہیے

بات اگر یہیں تک رہتی تو مسئلا نہیں تھا ۔ ۔ لیکن عالمی میڈیا نے تو اس بات کو لے کرخوب چرچا کیا اور خان صاحب کو خوب سنایا حتی کہ ایک مشہور غیر ملکی اخبار نے خان صاحب کو پھر سے اسکول جانے کا مشورہ دے دیا ۔ ۔


 تو قارئین محترم
یہ ہیں ہمارے ملک پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم عمران خان صاحب جنہوں نے بلنڈرز پر بلنڈرز کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ ۔  خیر ہم کیا کر سکتے ہیں ، ہم تو صرف تماشائ ہیں ، تماشہ دیکھ رہے ہیں اور ساتھ میں دعا کر رہے ہیں کہ اللہ ہمارے خان صاحب کو عقلِ سلیم عطا فرماۓ اور ہمیں ان کی حرکتیں برداشت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔ ۔ آمین ثم آمین ۔۔


Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top