فوجِ اعدا میں گُھس کر سناں بازیاں
دُور ہی سے کبھی تیر اندازیاں
پرچمِ افتخارِ صفِ غازیاں
’اُن کے آگے وہ حمزہ کی جانبازیاں
شیرِ غُرّانِ سَطوَت پہ لاکھوں سلام‘
15 شوال المکرم سنہ 2 ہجری بروز ہفتہ
یوم شہادت حضور نبی کریم ﷺ کے چچا جان سید الشہدا اسدا اللہ و اسد الرسول سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ
سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ کی شہادت جنگ احد کے دوران ہوئ ، ہند بنتِ عتبہ نے آپ کو شہید کرنے کی ذمہ داری وحشی بن حرب نامی ایک غلام کو سونپی تھی ، جو دور سے جنگی ہتھیار برچھی کو نشانے پر مارنے کا کمال رکھتا تھا ، وحشی کو اس ذمہ داری کے پورا کرنے پر زیورات کی لالچ دی گئ تھی ۔ ۔ ۔ جنگ کے دوران وحشی بن حرب کی نظریں حضور کے چچا سیدنا امیر حمزہ کو تلاش کر رہی تھیں اور بالآخر وہ اپنے ناپاک عزم میں کامیاب ہوا ۔ ۔ بات یہیں پر نہیں ختم ہوئ بلکہ جس طرح دوسرے شہید مسلمان صحابہ کرام کی لعشوں پر سے ان کے ناک اور کان کاٹ دیے گۓ اور ان کی بے حرمتی کی گئ اسی طرح کا سلوک کفار نے سیدنا امیر حمزہ کے ساتھ بھی کیا ۔ ۔ بلکہ حضور کے چچا امیر حمزہ کی لعش کا مسلا کر دیا گیا اور ان کے جسم اطہر سے ان کا کلیجہ نکال کر ہند بنت عتبہ نامی عورت چبانے لگی ۔ ۔ ۔
واضح رہے کہ وحشی بن حرب اور ہند نامی عورت فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگۓ تھے ۔ ۔
حضور نبی کریم ﷺ اپنے چچا حضرت حمزہ سے بے حد پیار کرتےتھے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ کے جسدِ اطہر کو یوں کٹا دیکھ کر حضور سرور کونین صلی اللی علیہ وسلم کی چشمان مبارک سے آنسو بہنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہچکی بندھ گئ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے شہید چچا جان کو مخاطب کرکے فرمایا :
"آپ پر اللہ رحم فرمائے اے چچا جان! آپ بے حد صلہ رحمی فرمانے والے اور بے حد نیکیاں کرنے والے تھے"
"آپ کی شہادت سے بڑھ کر میرے لئے کوئ مصیبت نہ ہو گی, اس مقام سے بڑھ کر غضب انگیز مقام پر کھڑا ہونے کا اس سے قبل اتفاق نہیں ہوا"
مزید فرمایا کہ
"میرے پاس جبرائیلِ امین علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ ساتوں آسمانوں میں تحریر ہے :
"حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شیر ہیں"
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک چادر میں کفن دیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ پاؤں ڈھانپتے تو سر برہنہ ہو جاتا اور سر ڈھانپتے تو پاؤں برہنہ ہو جاتے تھے لہذا سر کفن سے ڈھانپ دیا گیا اور پائے اقدس پر اذخر گھاس ڈال دی گئ ۔ ۔ ۔
حضور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازِ جنازہ ادا فرمائ پھر باقی شہداء کی نماز اس طرح پڑھی کہ ہر شہید کے جنازہِ کو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ کے ساتھ رکھتے اور اس کی نماز ادا فرماتے ۔ ۔ ۔ اس طرح حضرت سید الشہداء کی 70 بار نمازِ جنازہ پڑھی گئ ۔ ۔
میدان احد میں حضرت سیدنا امیرِ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ہی قبر میں دفن فرمایا ۔ ۔
حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے چچا جان حضرت امیر حمزہ کی شہادت کا اس قدر دکھ تھا کہ تاریخ کے اوراق میں ملتا ہے کہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ساری عمر تک اپنے چچا کی شہادت کا دکھ محسوس کرتے رہے ۔
یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقعے پر جب رحمت اللعالمین ﷺ سب کے لیے عام معافی کا اعلان فرما چکے تھے اس کے بعد بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک حضرت امیر حمزہ کی صاحبزادی پر پڑی تو انہیں دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انہیں یہاں سے لے جاؤ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اہل مکہ کو عام معافی دینے کے بعد سب کے قتل کا حکم دے دوں ۔ ۔
حضور ﷺ کی اپنے چچا سے اور ان کے چچا کی حضور پرنور ﷺ سے محبت دیدنی تھی ۔ ۔ خداۓ لم یزل ہمیں بھی اپنے محبوب ﷺ سے سچی محبت عطا فرماۓ ۔