سر دیوار لکھتا تھا پس دیوار کے قصے | محمد بلال خان

0

میرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب تھا اس میں
سر دیوار لکھتا تھا پس دیوار کے قصے

محمد بلال خان ایک جامع شخصیت کا مالک ، سادہ مگر اصولی موقف اپنانے والا لڑکا تھا ، عشق رسول ﷺ اور حب صحابہ کو دل میں بسا کر کفر کے لیے حامیان اسلام کی طرف سےشمشیر بے نیام تھا ۔ ۔ وہ ایک سچا پاکستانی اور درد دل رکھنے والا ایک درویش صفت انسان تھا ۔ ۔

اس سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تو کہتا تھا

” ہاں میں بنیاد پرست ہوں مگر میری بنیاد اسلام ہے “
اسلام کی محبت اور مخالفین اسلام سے عداوت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئ تھی ۔ ۔ وہ ناموس رسالت پر اٹھنے والی جاندار آواز تھا وہ ختم نبوت کا ڈنکے کی چوٹ پر پرچار کرنے والا باعمل انسان تھا ۔ ۔ وہ حق گو صحافی تھا جس نے صحافت کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا ، وہ اسلام کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ تھا ، اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے ہوکر اذان عشق کا فریضہ ادا کرنے والا بے باک اور نڈر مجاہد تھا ۔ ۔
گویا شاعر کے بقول،

اذانِ عشق کا منصب سنبھال رکھا ہے
اسی لیے تو اپنا تخلص بلال رکھا ہے

بلال خان صحافی تھا ، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ تھا ، وہ شاعر تھا ، وہ مظلوم و محکوم کی آواز تھا سب سے سےبڑھ کر یہ کہ وہ ایک پرامن اور نفیس انسان تھا ۔ ۔ وہ جسے حق سمجھتا تھا اسے ڈنکے کی چوٹ پر بیان کرتا تھا ، بلکہ دوسروں سے بھی کہا کرتا تھا کہ
”آواز اٹھائیں قبل اس کے کہ آواز چھین لی جاۓ “

وہ نہایت بہادر تھا دلیر تھا نہ جانے کتنی ہی دھمکیاں سننے کے بعد بھی اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا ۔ ۔ اور شاید اس کی یہی خوبی اسے بھری جوانی میں اس دنیا سے اوجھل کر گئ ۔ ۔ حالانکہ وہ کئ بار یہ کہہ چکا تھا کہ جس کو مجھ سے کوئ  تکلیف ہے کوئ مسئلا ہے وہ مجھ سے قانونی طریقے سے رابطہ کرلے میں ہر قانونی فورم پر جواب دینے کو تیار ہوں ۔ ۔ لیکن یہ لاقانونیت اور دھمکیوں والا کھیل مجھ سے نہ کھیلو ۔ ۔

قارئین کرام
یہ تو تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ اس مملکت خداداد پاکستان میں ایک عرصہ دراز سے حق گو احباب کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک ہوتا آرہا ہے ۔ ۔ انہیں دھمکیاں دے کر چپ کروادیا جاتا ہے اور اگر دھمکیوں سے خاموش کروانے میں ناکام ہوجائیں تو انہیں ابدی نیند سلا کر خاموش کروادیا جاتا ہے ۔ ۔ بلال خان کو بھی اسی طرح خاموش کروانے کی کوشش کی گئ لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ
” بلال اگر چلے بھی جائیں تو بھی اذانیں گونجتی رہتی ہیں ۔ ۔ “

آخر میں یہ بات واضح کردوں کہ

بلال خان کو اگر اس کے نظریاتی مسلمان ہونے کی وجہ سے شہید کیا گیا ہے تو دشمنان اسلام یہ سن لیں کہ اسلام کے معاملے میں یہاں ہر دوسرا شخص بلال خان ہے ۔ ۔ تم بلال خان کو تو ہم سے بہت دور لے گۓ لیکن اس سوچ اور نظریے کو ہم سے دور نہیں لے جاسکتے جس نظریے کی بنیاد اسلام ہے ، تم اس نظریے کو ہمارے دماغ سے مٹا نہیں سکتے جس کا پرچار بلال خان ساری عمر کرتا رہا ۔ ۔ بلال خان کا نظریہ کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے اور ان شاءاللہ العزیز روز ازل تک زندہ رہے گا ۔ ۔ یہ نظریہ اسلام ہے اسے جتنا دبانے کی کوشش کرو گے یہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آۓ گا ۔ ۔ 💪💪


Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top