کہا جاتا ہے کہ ۔ ۔
ایک چیل شکار کرنے کو نکلا شکار کر کے کچھ گوشت کا حصہ اپنے بچوں کے لیے لے جا رہا تھا ، کہ اچانک گوشت کا ٹکڑا کسی طرح اس سے گر گیا اتنے میں دو بلیوں کی نظر اس ٹکڑے پر پڑ گئ ۔ ۔ دونوں اس تک دوڑ کر پہنچیں اور آپس میں اس گوشت کے ٹکڑے کی وجہ سے لڑنے لگ گئیں ، اتنے میں ایک بندر کی ان پر نظر پڑی ۔ ۔ بلیوں کو لڑائ میں مشغول دیکھ کر بندر آہستہ سے وہاں پہنچا اور گوشت کا ٹکڑا لے کر بڑی پھرتی سے وہاں سے فرار ہوگیا ۔ ۔
قارئین کرام ! یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ
وہ گوشت کا ٹکڑا ملکیت کسی اور کی ہے ، اس پر لڑ کوئ اور رہا ہے اور اس لڑائ کا فائدہ کوئ اور ہی اٹھا رہا ہے ۔ ۔
قارئین کرام !
ہمارے ملک کے سیاسی حالات بھی اسی کے مصداق ہیں ۔ ۔ یہاں چیز کسی اور کی ہوتی ہے اس پر لڑ کوئ اور رہا ہوتا ہے اور اس کا فائدہ کسی اور ہی کو ہوتا ہے ۔ ۔
گویا کہ
” میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئ اور ہے “
قارئین محترم!
اسی تناظر میں ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو مولانا فضل الرحمان صاحب جو آزادی مارچ اوردھرنے کے منصوبے بنا کر انہیں عملی جامہ پہنانے نکلے ہیں یقین جانیں اس سے نہ تو خان صاحب کو کچھ نقصان ہونے والا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو کوئ فائدہ ۔ ۔ ہاں اگر کسی کا کچھ فائدہ ہوا بھی تو وہ فقط مولانا کی ذات ہوگی ۔ ۔ باقی اگر کسی کا صحیح معنی میں نقصان ہونے کا اندیشہ ہے وہ ہیں اسلام آباد اور راولپنڈی کے باسی۔ ۔ ۔ جو 2014 میں خان صاحب کے دھرنے کی وجہ سے بھی خوار ہوتے پھر رہے تھے اور اب بھی معاملہ ویسا ہی دکھائ دے رہا ہے ۔ ۔
خیر سانوں کی۔۔