قارئین کرام !
ملک پاکستان کے حالات تو ہمیشہ ہی عجیب نوعیت کے رہے ہیں ، اسی تعلق سے اکثر کہا جاتا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے ملک کی معیشیت اور پاکستانی بلے بازوں کی بیٹنگ کو بدحال ہی دیکھا ہے ۔ ۔
بہرحال ملکی حالات تو رہے ایک طرف یہاں تو سیاسی حالات بھی بڑے حیران کن ہیں ، یوں سمجھیے کہ ایک میدان ہے جہاں سیاست نامی کھیل کھیلا جارہا ہے، عوام الناس خاموش تماشائی ہیں اور چند نامور اور بے نامی کھلاڑی اس گیم کو کھیل رہے ہیں ۔ ۔
اب اس کھیل کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ مخالف ٹیم کے کپتان میاں صاحب جو میدان سیاست کے بڑے نامور اور منجھے ہوۓ کھلاڑی مانے جاتے ہیں اب بڑی طرح انجرڈ ہوچکے ہیں ، اور عین ممکن ہے کہ یہ انجری ان کو سیاسی موت کے منہ تک لے جاۓ ، دوسری طرف میاں صاحب کے جونئر لیکن بڑے تجربہ کار اور منجھے ہوۓ کھلاڑی آصف زرداری ہیں جن کو وکٹ کے چاروں جانب کھیلنے کا بڑا شوق تھا ان کی بدقسمتی اور پاکستان کی خوش قسمتی کہ فکسنگ کی وجہ سے میدان سیاست سے بے دخل کردیے گۓ، اور امید اور دعا کی جاسکتی ہے کہ دوبارہ ان کا کبھی پاکستان سے پالا نہ ہی پڑے ، قارئین کرام
یہ اب بڑی ہی نازک صورتحال ہے ۔ ۔ ۔ کیونکہ ان دونوں اہم کھلاڑيوں کی غیر موجودگی میں اپوزیشن ٹیم کا حال بھی اسی طرح کا ہے جو بیمار گیڈر کا ہوا کرتا ہے ۔ ۔
لیکن افسوس کہ یہ گھسی پھٹی بوسیدہ سی مردار ٹیم بھی ہمارے کپتان کو ٹف ٹائم دے رہی ہے ۔ ۔ وہ کپتان جس سے قوم کو یہ امید تھی کہ آتے ہی چوکوں چھکوں کی بھرمار لگا دیں گے وہی کپتان 15 مہینوں سے ٹک ٹک کیے جارہے ہیں نہ اسکور کرتے ہیں نہ ہی آؤٹ ہوتے ہیں ، جب ان سے کہو کہ خان صاحب کچھ اسکور تو کرو تو جواب میں فرماتے ہیں
”چور چور چور ـ۔ ۔ ۔ ۔“
گویا کہ کپتان نے یہ عہد کرلیا ہے کہ نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے ۔ ۔ خان صاحب کی یہ ہٹ دھرمی ، ڈھٹائ اور ٹک ٹک دیکھ کر خود خان صاحب کے چاہنے والے بھی اکتاتے جارہے ہیں لیکن خان ساب کی جوتی کو بھی اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ ۔
لیکن قارئین کرام !
مسئلا یہ درپیش ہے کہ جس میدان میں یہ سیاست کا کھیل کھیلا جارہا ہے وہ میدان اب بڑی بری طرح سے خراب ہوتا جارہا ہے ، میدان کی پچ میں گڑھے پڑ چکے ہیں ، آؤٹ فیلڈ پوری طرح خراب ہوچکی ہے فلڈ لائٹ بند ہوتی جارہی ہیں سائیڈ اسکرین آخری ہچکولے لے رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کھیل کے چکر میں اس میدان پر خرچ کرنے کے لیے جو قرضے لیے گۓ تھے وہ بھی گلے کی ہڈی بن چکے ہیں لیکن مجال ہے جو ہمارے کپتان اسکور کرتے ہوں یاآؤٹ ہوتے ہوں ۔ ۔
اسی صورتحال کو 15 مہینوں سے خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھنے والی عوام اب بالآخر یک آواز ہوکر بولنے لگ پڑی ہے کہ :
میرے کپتان !
”کرسی ہے یہ تمہارا جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے“