عمر دراز مانگ کر لاۓ تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گۓ دو انتظار میں
قارئین محترم !
زندگی خداۓ لم یزل کی عطا کرہ نعمتوں میں سے ایک بہترین اور اعلی نعمت ہے ، انسان کے تمام نیک ارادے اور افعال فقط اسی نعمت کے دم سے ہیں ، کہ زندگی ہے تو باقی نعمتیں قدر و وقعت رکھتی ہیں گر یہ ہی نہیں تو باقی تمام نعمتیں بے معنی سی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں ۔ ۔
قارئین کرام!
اکثر کہا جاتا ہے کہ زندگی فقط چار دن کا کھیل تماشہ ہے ۔ ۔ اور اگر دیکھا جاۓ تو یہی اٹل حقیقت بھی ہے ، انسان کی زندگی کے اصولی طور پر چار ادوار ہیں
بچپن ، جوانی ، ادھیڑپن ، بڑھاپا
یہی چار ادوار انسانی زندگی کے چار روز کہلاتے ہیں ، جنہیں انسان یہ سمجھ کر عیاشی اور بے فکری میں گزار دیتا ہے کہ جناب ابھی تو ساری زندگی پڑی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے پاس بڑی معمولی سی مہلت ہے جسے ہم زندگی کا نام دیتے ہیں ، عالم ارواح سے عالم برزخ کے سفر کے دوران ذرا سی دیر پڑاؤ کرنے کو زندگی کہتے ہیں ، یہ مہلت اتنی ہی ہے جتنا کہ اذان اور اقامت نماز کے درمیان وقفہ ہوا کرتا ہے ، کہ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اور جب اس دنیاۓ فانی سےرخصت ہوتا ہے تو اس کی نماز ادا کی جاتی ہے گویا کہ یہ زندگی ایک مختصر سی مہلت کا نام ہے ، جو فقط چار دنوں پر مشتمل ہے لیکن افسوس کہ
”اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہ “
اور یوں یہ چار دن کی زندگی ہم لوگ یوں گزار دیتے ہیں کہ بچپن اور جوانی آرزوؤں اور تمناؤں کو اپنے دامن میں پناہ دیتے ہیں جبکہ آخری کے دو دن ہم ان آرزوؤں کے پورا ہونے کے انتظار میں لگے رہتے ہیں اور ہوش تب آتا ہے جب باقی ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا