اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
قارئین کرام
کون اقبال ؟؟؟؟
وہ اقبال جو فقیہ امت ، فخر امت اور سرمایہ امت تھا جسے دنیا اقبال حکیم الامت کے نام سے جانتی ہے ۔ ۔ وہ اقبال جو قلم اٹھاۓ تو امت کو جینے کا فلسفہ بتادے ، جب زبان کھولے تو امت کو مقصد حیات بتادے ، جب امت کو خدا سے شکوے شکایات ہونے لگ پڑیں تو خدا کے سامنے امت کا ترجمان بن کر تمام شکوے شکایات خدا کی بارگاہ میں پیش کردے ، نہ صرف پیش کردے بلکہ خداۓ لم یزل سے ان شکووں کا جواب بھی دلاۓ ، امت کو آئینہ بھی دکھادے اور مسائل کا حل بھی بتادے ۔ ۔ اسی لیے اکثر کہا کرتا ہوں کہ خدا جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے تو اس کو تحفے میں اقبال جیسا مرد قلندر عطا کردیتا ہے جو نرم دم گفتگو بھی ہوتا ہے گرم دم جستجو بھی حق گوئ و بے باکی جس کا شیوہ ہوا کرتی ہیں جس کی نگاہ بھی بلند ہوتی ہے جس کا سخن بھی دل نواز ہوتا ہے جس کے پاس قل ھواللہ کی شمشیر بھی موجود ہوتی ہے ، جس کا انداز بھی دلبرانہ ہوا کرتا ہے ، جس کی صفات میں درویشی بھی موجود ہوتی ہے اور قہاری و غفاری بھی جس کی جان اس قدر پرسوز ہوا کرتی ہے کہ خدا اسے میر کارواں بنا امت کی رہنمائ فرماتا ہے ، جس کے سینے کو خدا نور بصیرت سے روشن کر دیتا ہے جو کئ تاریک دلوں میں چراغ جلانے کا سبب بنتا ہے ۔ ۔
مندرج ذکر مرد حق بطور انعام و نوازش بس یوں ہی عطا نہیں کردیا جاتا بلکہ اس کے پیچھے کئ صدیوں کی محنت و قربانی کار فرما ہوا کرتی ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
قارئین محترم !
کسی بھی مسلمان کے لیے اس کا قیمتی ترین سرمایہ اس کا ایمان ہوا کرتا ہے اور جس شخص میں جس قدر عشق رسول ﷺ ہوتا ہے اتنا ہی مضبوط اس کا ایمان ہوا کرتا ہے ، تو میں اقبال پر رشک کیوں نہ کروں کہ جس کا عشق رسول اسے اس مقام تک لے گیا جہاں تک رسائ عامہ ممکن ہی نہیں ، یہ اقبال کا عشق رسول ہی تھا جو اسے بارگاہ خداوندی میں امت کا ترجمان بنا کر لے گیا اور پھر
”چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال“
قارئین کرام !
یقین جانیں آج اگر دنیا اقبال کو اس قدر عزت و مقام دیتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اقبال نے سیدی رسول اللہ ﷺ سے عشق ٹوٹ کر کیا ہے ، وگرنہ شاعر تو اور بھی بہت آۓ لیکن وہ عزت و مقام نہ حاصل کر سکے جو اقبال کو خدا نے عطا کیا ہوا ہے ۔ ۔ اہل ذوق و ادب غالب و میر کو فنی لحاظ سے اقبال پر زیادہ فوقیت دیا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اقبال اپنا الگ ہی مقام رکھتے ہیں جو یقیناً عنایت خداوندی ہے لیکن اس کی وجہ عشق رسول ہی ہے ، یہ اقبال کا عشق رسول ہی تھا جس نے اقبال کو حکیم الامت بنادیا بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ یہ عشق رسول ہی تھا جس نے اقبال کو اقبال بنایا ، اس بارے میں خود اقبال فرماتے ہیں کہ ۔ ۔
”اقبال تیرے عشق نے سب بل دیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئ“
قارئین کرام !
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اقبال ساری عمر دربار رسالت اور حجاز مقدس تشریف نہ لے جاسکے جب ارادہ بنتا رو رو کر ایسی کیفیت بنا لیتے کہ جانا محال ہوجاتا ۔ ۔
اقبال کے رونے کی وجہ فقط یہی تھی کہ وہ شرمسار تھے نادم تھے کہ وہ کس منہ کے ساتھ سیدی رسول اللہ ﷺ کا سامنا کریں گے ۔ ۔ اقبال تو بروز حشر بھی حضور ﷺ کا سامنا کرنے سے عاجز آرہے تھے لہذا خدا کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں کہ
تو غنی ازہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہاۓ من پذیر
گر تو بینی را حسابم ناگزیر
ازنگاہ مصطفی پنہاں بگیر
اقبال کا سیدی رسول اللہ ﷺ سے عشق قدر پختہ اور والہانہ تھا کہ اقبال اس ہر شے سے محبت رکھتے تھے جس کی نسبت سیدی رسول اللہ ﷺ سے ہو ، چاہے وہ حجاز مقدس ہو کلام مقدس و مطہر ۔ مدینہ منورہ کے بارے میں اقبال اس قدر والہانہ عشق رکھتے تھے کہ حجاز مقدس میں اپنی حاضری کی تمنا بھی زمانے سے جدا رکھتے تھے ، ان کی تمنا تھی وہ راہ مدینہ کے لیے جانے والے راستے کی خاک بن جائیں اور ہوا کا کوئ جھونکا اس خاک کو اڑا کر طیبہ کی حاضری کا شرف بخش دے ۔ ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ
ہوا ہو ایسی کے ہندوستان سے اے اقبال
اڑا کر مجھے غبار راہ حجاز کرے
اقبال کا عشق ہر اس چیز سے تھا جس کا تعلق سیدی رسول اللہ ﷺ سے کسی بھی طرح سے وابستہ ہو، لہذا اقبال کا قرآن مجید سے عشق بھی ایک الگ ہی داستان ہے ، مسلم امہ کی تاریخ میں قرآن سے متعلق اتنا بڑا دعوہ شاید ہی کسی نے کیا ہو ۔ ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ
گر دلم آئینہ بے جوہراست
ور بحر فم غیر قرآں مضمر است
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پاکن مرا
”اے خدا اگر میرے دل میں کوئ جوہر نہیں ہے اگر میرے دل میں قرآن کے علاوہ دوسری کوئ چیز ہے
تو خدایا مجھے ذلیل و رسوا کر دے اور حد یہ کہ مجھے قیامت کے روز حضور ﷺ کے قدموں کے بوسے سے محروم کردینا ۔
اقبال اپنی شاعری میں فرماتے ہیں کہ وہ ایک بار خیالی طور پر بارگاہ رسالت میں حاضری کے لیے پہنچے وہاں پہنچ کر بارگاہ رسالت کے سامنے پہنچ کر یوں جھک گۓ گویا سجدہ کررہے ہوں پھر فرماتے ہیں کہ اتنے میں وہاں کا حکمران عبد العزیز آگیا اور کہنے لگا کہ یہ کیا کررہے ہو تم سجدہ کررہے ہو ؟؟؟ اقبال جواب میں فرماتے ہیں
نہیں عبدالعزیز ! میں سجدہ نہیں کررہا بلکہ میں تو پلکوں سے محبوب کے دروازے کے آگے جھاڑو دے رہا ہوں ۔ ۔
سجود نیست اے عبدالعزیز ایں
بروبم از مژدہ خاک در دوست
قارئین کرام یہ وہ عشق رسول ہے جو عاشق کو زمانے سے ممتاز بنا دیتا ہے
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
جناب والا !
وفا کی آخری حد سے محبت کی شروعات ہوتی ہے جبکہ محبت کی آخری حد عشق کہلاتی ہے اور جب عشق کی ابتدا ہوجاۓ تو پھر اس کی انتہا نہیں ہوتی ۔ ۔ پھر عشق کے بعد بھی عشق ہی ہوا کرتا ہے ۔ ۔
اور اقبال عشق کے اوج ثریہ پر پہنچ کے بھی یہی تمنا کرتے ہیں کہ
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
قارئین کرام
اقبال کی شاعری اور فکر کا خلاصہ عشق رسول اور حب رسول ﷺ ہے اور اقبال نے امت مسلمہ کو بھی یہی درس دیا ہے کہ اگر کامیابی چاہتے ہو حضور ﷺ سے عشق کرو
اقبال فرماتے ہیں
ﺯﺍﻧﮑﮧ ﻣﻠﺖ ﺭﺍ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﺯ ﻋﺸﻖ ﺍﻭﺳﺖ
ﺑﺮﮒ ﻭ ﺳﺎﺯ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺍﺯ ﻋﺸﻖ ﺍﻭﺳﺖ
ﺟﻠﻮﮦﺀ ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦﺀ ﺍﻭ ﺩﺍ ﻧﻤﻮﺩ
ﺟﻮﮨﺮ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﮐﮧ ﺑﻮﺩ ﺍﻧﺪﺭ ﻭﺟﻮﺩ
ﺭﻭﺡ ﺭﺍ ﺟﺰ ﻋﺸﻖ ﺍﻭ ﺁﺭﺍﻡ ﻧﯿﺴﺖ
ﻋﺸﻖ ﺍﻭ ﺭﻭ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﻮﺭﺍ ﺷﺎﻡ ﻧﯿﺴﺖ
ﺧﯿﺰﺩ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﺮﺩﺵ ﺁﻭﺭ ﺟﺎﻡ ﻋﺸﻖ
ﺩﺭ ﻗﮩﺴﺘﺎﮞ ﺗﺎﺯﮦ ﮐﻦ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻋﺸﻖ
از دین مصطفی دین حیات
زندگی گیرد بہ ایں قانون ثبات
اور
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
بہت ہی خوبصورت مضمون
ReplyDelete