جناب کبھی آپ نے ایسا محسوس کیا ہے کہ آپ کسی پر بھروسہ کر کے اسے کوئ کام دیں اور وہ آپ کے پورے کام کا بیڑا غرق کر کے رکھ دے ۔ ۔
کبھی کسی کے پاس اپنے پیسے رکھوائیں اور جب واپس آکر دیکھیں تو آدھے پیسے ہی غائب ہیں
یا کبھی اپنا کاروبار کسی کے حوالے کردیں اور وہ آپ کو اپنی خراب پالیسیوں اور نکمے پن کی وجہ سے سڑک پر لے لاۓ ۔ ۔
ذرا اس صورتحال میں خود کو تصور کر کے دیکھیں ۔ ۔ آپ کو کیسا محسوس ہوگا اس صورتحال میں ؟؟؟
یقیناً برا ہی محسوس ہوگا ، بڑا غصہ آۓ گا اس بندے پر بھی اور خود پر بھی ، کہ کاش میں نے اس کو یہ ذمہ داری سونپی ہی نہ ہوتی ۔ ۔
تو یقین مانیں قارئین محترم
اس وقت باجوہ صاحب کی بھی کچھ اسی طرح کی کیفیت ہے ۔ ۔ انہیں بھی بڑا غصہ آرہا ہوگا ، خان صاحب پر بھی اور خود پر بھی کہ یہ کیسے لوگ لے آیا میں جنہیں نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا بھی طریقہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔
قارئین
معاملہ کچھ یوں ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے رواں برس ریٹائر ہوجانا تھا ۔ ۔ لیکن خان صاحب نے بڑی سوچ و بچار کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جب باجوہ صاحب چلے گۓ تو ہم نے سیاسی طور پر یتیم ہوجانا ہے لہذا فلاح و بہتری اسی میں ہے کہ باجوہ صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جاۓ ۔ ۔ اب یہ فیصلہ تو ہوگیا لیکن مملکت خداداد پاکستان کی برسر اقتدار حکومت جو خود کو عوام کی منتخب حکومت کہتی ہے اس حکومت کو اس بات کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا تک نہیں آیا ۔ ۔ ۔ پہلے تو خان صاحب نے خود باجوہ صاحب کے ایکسٹینشن پر دستخط کر دیا پھر بعد میں پتہ چلا کہ اس طرز کے نوٹیفیکیشن پر وزیراعظم نہیں بلکہ صدر مملکت سے دستخط کروایا جاتا ہے ۔ ۔ لہذا خان صاحب نے نوٹیفیکیشن فوری طور پر صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب کی جانب ارسال کردیا اور یوں عارف عارف علوی صاحب نے بھی عجلت میں اس پر سائن کیا اور سمجھے کہ چلو اب کام مکمل ہوا ۔ ۔ اب کہانی میں نیا موڑ تب آیا جب حکومت کو یہ پتہ چلا کہ اس نوٹیفیکیشن پر صدر مملکت کے دستخط صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہیں جب اراکین کابینہ صدر صاحب کو اس کی تجویز دیں، لیکن یہاں تو بغیر کسی تجویز کے عجلت ہی میں دستخط کروادیا گیا تھا ، لہذا حکومتی مشنری حرکت میں آئ اور ایک نیا نوٹیفیکیشن بنوایا جس میں اراکین نے صدر صاحب کو آرمی چیف کے ایکسٹینشن کی تجویز دی لیکن نکمے پن کی انتہا کہ اب کی بار نوٹیفیکیشن پر صدر مملکت کے دستخط کروانا ہی بھول گۓ ۔ ۔
اب آپ ہی بتائیں قارئین کرام ۔ ۔
کیا یہ کام جوۓ شیر لانے کے مصداق تھا کہ جس کے لیے اتنی مرتبہ کوششیں کی گئیں لیکن آخر میں پھر بھی ناکام ہی رہے ۔ ۔
لیکن جو کچھ بھی ہو اک بات تو اب باجوہ صاحب مکمل طور پہ سمجھ گۓ ہوں گے کہ جن لوگوں کو یہ پروموٹ کر کے آگے لاۓ ہیں وہ مکمل طور پر نکمے ہیں ، انہیں تو ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری نہیں کرنا آتا تو یہ اس ملک کو کیا خاک سنبھالیں گے ۔ ۔
جن کے پاس معلومات اور علم ہی کی کمی ہے ان کے پاس وژن کیا خاک ہوگا ۔ ۔
ویسے حیرت ہے ان لوگوں پر کہ جو اب تک سمجھتے ہیں کہ خان صاحب ملک کی حالت سنوار دیں گے ۔ ۔
باقی رہی باجوہ صاحب کی بات تو آج سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے جہاں یہ فیصلہ ہونا ہے کہ آیا باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن ملنی ہے یا نہیں ۔ ۔
اور میرا ظن غالب ہے کہ باجوہ صاحب سپریم کورٹ سے سرخرو ہوں گے ۔ ۔ لیکن بہرحال جو بھی فیصلہ ہو اللہ پاک ملک پاکستان کا حامی و ناصر ہو ۔ ۔