امت مسلمہ پر مغرب کی یلغار

0



قارئین کرام
دنیا بھر میں جہاں چاہیں نظر ڈال کر دیکھ لیں کہیں ایسا اسلامی ملک نہ ڈھونڈ سکیں گے جہاں مغرب و یہودیت کے پنجے نہ گڑے ہوں ، کہیں ایسا ملک نہ ڈھونڈ سکیں گے جو مکمل طور پر اسلامی نظام کے تحت چلایا جارہا ہو ، جہاں نظر گھمائیں وہیں مغربی نظام اور جاہ جلال سے مرعوبیت دکھائ دے گی ، کوئ مغرب کے نظام حکومت سے متاثر ہے تو کوئ مغربی افکار سے ، کسی کو مغرب میں ترقی نظر آتی ہے تو کسی کو مغربی کلچر سے لگاؤ ہے الغرض یہ کہ اکثر و بیشتر کی سوچ و فکر اور دل و دماغ پر مغرب کا بڑا گہرا اثر و رسوخ ہوچکا ہے ۔
قارئین کرام !
ذرا سوچیں تو صحیح کہ
یہ مغربی مرعوبیت اور مغرب پسندی آخر اس قوم میں کیسے اور کیونکر پیوست کر دی گئ ؟

اگر دیکھا جاۓ تو یہ مغرب پسندی اور مرعوبیت کسی خاص مقصد کے لیے مخصوص طریقے سے مسلم امہ پر  زبردستی تھوپی گئ ، اور وہ خاص مقصد اسلام کا خاتمہ اور دنیا بھر میں یہودیت کا پرچم لہرانا ہے ، اور اس مقصد کے حصول کے لیے یہودی لابی اور مختلف یہودی تنظیمیں کئ صدیوں سے کوشاں ہیں ، جی ہاں جناب کئ صدیوں سے ۔ یہ سازش یہ یلغار فقط آج کے دور کی بات نہیں بلکہ یہ کاروائیاں دور رسالت ﷺ سے چلی آرہی ہیں ، اُس دور میں بھی ان کاروائیوں کا مقصد وہی تھا جو آج کے دور میں ہے ، اگر اتنی صدیوں میں کچھ بدلا ہے تو فقط انداز ۔ وہ یوں کہ اب وہ مسلمانوں پر حملہ نہیں کر تے بلکہ مسلمانوں کے ایمانوں پر حملہ کرتے ہیں ، اب وہ جان چکے ہیں کہ اگر اسلام کو ختم کرنا ہے تو مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کی حرارت اور عشق رسول کی چاشنی کو ختم کر دو ، ان کو یہ بات سمجھ آچکی کہ

وہ فاقہ کش کے موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو


قارئین محترم!
اپنے ان ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے مغربی دنیا نے ہر دور میں مختلف ذرائع استعمال کیے ، مختلف طریقوں سے اسلام کے خلاف یلغار کی صورت بنائ ۔ لیکن اگر موجودہ دور کی بات کی جاۓ تو مغربی دنیا کی سب سے تابناک یلغار اسلامی نظریات سے امت مسلمہ کو بدظن کرنا ہے ، جسے آپ کچھ بھی نام دے سکتے ہیں ”ففتھ جنریشن وار“ کہیں  یا ”الغزوة الفکری“ کے نام سے جانیں ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ مغرب اب اسلحوں اور میدانی جنگ پر یقین نہیں رکھتا بلکہ مختلف تخریب کاری مہمات کے ذریعے مسلمانوں کے نظریات پر حملہ آور ہوتا ہے ، موجودہ دور کی جنگ نظریات کی جنگ ہے جسے یہودی اور اہل کلیسا بڑے بھیانک طریقے سے فروغ دے رہے ہیں ، اس طرز کی جنگ میں مغربی دنیا ایک دم سے مسلمانوں کے نظریات پر حملہ آور نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ انہیں نقصان پہنچاتی ہے ، چاہے اس میں انہیں کئ سال یا صدیاں ہی کیوں نہ لگ جائیں ، اہل علم کہا کرتے ہیں کہ

” نظریاتی جنگ عام جنگوں سے زیادہ خطرناک ہوا کرتی ہے “
اور یہی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ عام جنگ میں انسان کی جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن نظریاتی جنگ میں تو انسان اپنا ایمان بھی گنوا سکتا ہے ۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ
آخر اس غضبناک قسم کی مغربی یلغار سے کس طرح بچا جا سکتا ہے ؟؟

تو قارئین محترم
اس کا حل یہی ہے کہ ہم اپنے عقائد و نظریات کی حفاظت کریں ، مستند اسلامی کتابوں کا مطالعہ کریں ، علماء کی صحبت میں بیٹھا کریں ، اپنے اکابرین کی بیان کردہ تعلیمات کا مطالعہ کرکے ان کے کردار و افکار کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور مغربی مرعوبیت کی پٹی کو اتار پھینکیں،  دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام نے ہمیں ہر چیز کی ہر لحاظ سے تعلیمات فراہم کی ہیں تو پھر مغرب سے مرعوب ہونے کا جواز بھی نہیں بنتا
لہذا

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top