یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائ
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائ
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائ
قارئین محترم
آج سے تقریباً اٹھارہ ، بیس سال قبل جب امریکہ نے دو ، چار درجن حواری ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کر کے باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا اور ملا عمر و دیگر افغان طالبان امریکہ کے خلاف جہاد کی خاطر اٹھ کھڑے ہوۓ تو عالمی نیوز ایجنسی وائس آف امریکہ کے پلیٹ فارم پر براجھے آکسفورڈ سے پڑھے چند ایک علمی طور پر نابالغ دانشور اقبال کے اس شعر کا مذاق اڑانے لگے کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ان کے نزدیک یہ فقط ایک طلسماتی جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں تھا ان کو لگتا تھا کہ یہ باتیں سننے میں کانوں کو تو بھلی معلوم ہوسکتی ہیں لیکن ان کا حقیقت سے دور دور تک کوئ تعلق نہیں ، وہ یہ کہتے سنائ دے رہے تھے کہ دیکھتے ہیں اقبال کے یہ بے تیغ سپاہی کب تک افغانستان میں امریکہ جیسے سپر پاور ملک سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں اور وقت نے یہ ثابت کیا کہ اقبال کا فلسفہ بھی حق تھا اور افغان طالبان بھی حق پر تھے ، اقبال کے ان بے تیغ سپاہیوں نے امریکہ جیسے سپر پاور ملک کو ناکوں چنے چبوا کر بالآخر آج گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کردیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ وہ امریکہ جو بڑے غرور اور طاقت کے نشے میں افغانستان فتح کرنے کی نیت سے آیا تھا اب تقریباً بیس سال بعد ان غازیان اسلام سے مذاکرات کی بھیک مانگ کر فرار کے حیلے کررہا ہے ۔ ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ان بے تیغ سپاہیوں کے پاس ایسی کون سی پراسرار طاقت تھی جس کے سہارے انہوں نے یہ ناممکن کارنامہ سرانجام دیا تو اقبال کی وجد آفریں صدا کانوں سے ٹکراتی ہے کہ
قوت سلطان و امیر از لاالہ
ہیبت مرد فقیر از لاللہ
اقبال فرماتے ہیں کہ
یہ پاور یہ ہیبت اور یہ قوت دراصل اسلام کی قوت ہے ، مرد مومن کی اصل طاقت اس کا ایمان ہوا کرتا ہے ۔ ۔ اور یہ بے تیغ سپاہی ، یہ غازی جن کے پاس باقاعدہ افواج اور جدید ہتھیار اگرچہ نہ تھے لیکن ایمان کی طاقت سے ان کے دل اور دماغ بھرپور قوی تھے ، اور جب بندہ مومن کے پاس اسلام اور ایمان کی طاقت موجود ہو تو پھر وہ وقت کی سپر پاور کو خاطر میں نہیں لاتا، ان کی غلامی قبول نہیں کرتا ، نہ ہی ان کے خوف سے مرعوب ہوتا ہے ، بلکہ خدا پر توکل کرکے خدا کے احکام پر لبیک کہتے ہوۓ میدان جہاد میں پہنچ جاتا ہے ، دشمن اگرچہ تعداد اور وسائل میں کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو لیکن خداۓ پروردگار کا ارشاد برحق مومن کی دھارس بندھاتا ہے کہ
” ایمان والا ایک مومن دس کفار پر بھاری ہے “
اس بات کا عملی مظاہرہ ہمیں امریکہ افغان جنگ میں اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھنے کو ملا جہاں تعداد اور وسائل کے لحاظ سے نہایت کمزور نظر آنے والے افغان طالبان نے اصحاب رسول ﷺ کی یاد تازہ کرتے ہوۓ وقت کے سپر پاور کو ذلیل و رسوا کر کے واپس لوٹنے پر مجبور کردیا اور مسلمانوں کو اک بار پھر اقبال کا سبق پڑھا دیا کہ
فضاۓ بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
ان غازیان اسلام افغان طالبان نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ یقین دلادیا کہ تم اسلام کی خاطر چل کر تو دیکھو خداۓ پروردگار اب بھی بالضرور تمہاری مدد فرماۓ گا ، تم بدر و احد جیسا ماحول بنا کر کرتو دیکھو فرشتے اب بھی تمہاری امداد کو ضرور پہنچیں گے کیونکہ یہ خداۓ دوعالم کا امت مسلمہ سے کیا گیا ایک دائمی وعدہ ہے کہ
اِن تَنصُرَاللّٰہَ یَنصُرکُمْ o
اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا
مگر شرط فقط یہی ہے کہ
پہلے تم اللہ کے دین کی مدد کرو پھر اللہ تمہاری مدد کرے گا گویا پہلے میدان بدر میں جانا شرط ہے خدا کی مدد بھی تبھی پہنچے گی پہلے راہ خدا میں جہاد کے لیے نکلنا شرط ہے خدا کی مدد بھی تبھی آۓ گی ، لہذا اقبال کے یہ بے تیغ سپاہی بھی پہلا قدم اٹھاتے ہوۓ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے تیار ہوۓ نہ جانے کتنی مصیبتیں اور صعوبتیں برداشت کیں نہ جانے کتنی ہی جانوں کی قربانیاں دیں لیکن پھر بھی توکل الہی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خدا کا فرمان برحق ہے لہذا آج نہیں تو کل سہی لیکن خداۓ برحق کی مدد ضرور آجانی ہے اور بے شک اللہ سب سے بڑا مددگار ہے ، اور پھر بالآخر دنیا نے یہ دیکھا کہ کیسے ان بے تیغ سپاہیوں نے جدید ہتھیاروں سے مزین افوج کے پرکھچے اڑا کر رکھ دیے، یہی خدا کی جانب سے مدد تھی جس کی بدولت ان بے تیغ سپاہیوں کی ہمت و کاوش فتح و نصرت میں تبدیل ہوگئ
قارئین محترم !
ان غازیان اسلام کو تو اپنے خدا پر کامل بھروسہ تھا دسری جانب ان حواریان ابلیس امریکیوں کو اپنی جدید ٹیکنالوجی اور جدید ترین ہتھیاروں پر یقین تھا اور آج وقت کی ان مٹ سیاہی یہ گواہی دے رہی ہے کہ ان بے سہارا اور بے تیغ سپاہیوں کا توکل جیت گیا جبکہ اپنے ہتھیاروں کے بل بوتے پہ کھڑی طاقت کے نشے کی عمارت ریزہ ریزہ ہو کر ٹوٹ گئ یہ ہے خداۓ لم یزل کی مدد اور یہ ہے اسلام اور ایمان کی طاقت ۔ ۔
قارئینِ ذی وقار!
مندرجہ بالا فکر اور پیغام میں اور مجھ جیسے لاکھوں افراد اس مملکت خداداد پاکستان کی حکومتوں کو کب سے پہنچانے اور سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلمان ”گراؤنڈ ریالیٹی یعنی کہ زمینی حقائق “ کا پابند نہیں ہوتا بلکہ احکام الہی کا پابند ہوتا ہے، کیونکہ اگر گراؤنڈ ریالیٹی دیکھی جاۓ تو افغان طالبان کبھی اس جنگ میں فتح حاصل نہ کرسکتے لہذا زمینی حقائق کے نام پر اسلحے اور مشینوں کے موازنے کو رفع کریں کہ
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اب آپ بھی اگر مشینوں پر بھروسہ اور مشینوں ہی کا موازنہ کرتے رہیں گے تو شیطانیت کہلاۓ گی اور یوں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اسلام اور امت کی خاطر کچھ نہ کرسکیں گے لہذا خداۓ پروردگار پر توکل کریں اور جب کبھی اسلام یا امت مسلمہ پر کڑا وقت آجاۓ تو جہاد کے لیے لبیک کہا کریں ۔ ۔ ڈریں مت کچھ نہیں ہوگا جس طرح پوری امت افغان طالبان کو سرخرو ہونے پر مبارکباد دے رہی ہے آپ کو بھی مبارکبادیں ہی ملیں گی کیونکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے نکلیں گے تو اللہ کی مدد کو خود کے قریب پائیں گے ۔ ۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ، اس ملک میں جہاد سے متعلق قرآن کریم کی بے شمار آیات اور سرکار دوعالم ﷺ کی لاتعداد احادیث طیبہ کے صریح خلاف اقدامات لیے جاتے ہیں جو کہ بذات خود ایک منظوم سازش معلوم ہوتی ہے وہ سازش جو حواریان ابلیس اسلام کو مٹانے کے لیے صدیوں سے کیے آرہے ہیں وہی سازش جس کے اغراض و مقاصد داناۓ راز علامہ محمد اقبال نے بہت عرصہ قبل ہی بتادیے تھے اقبال کے مطابق یہ اور اس جیسی ہزاروں سازشوں کے پس پشت جو مقاصد کارفرما ہیں وہ یہی ہے کہ
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
اور
وہ فاقہ کش کے موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
اور حواریان ابلیس یہ بخوبی جانتے ہیں کہ جناب اس مقصد کے حصول کی خاطر کیا کرنا ہے وہ جانتے ہیں مسلمانان دنیا کو کس چنگاری کی طرف کب اور کیسے مائل کرنا ہے ، کیسے اہل حرم سے ان کی روایات کو چھیننا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ مقاصد حاصل کرنےہیں تو پھر
بہتر ہے کہ ان شیروں کو سکھادو رم آہو
کہ باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
قارئین کرام!
افسوس کہ جن چیزوں کے پیچھے یہ حواریان ابلیس ہمیں لگانا چاہتے ہیں ان کے پیچھے ہم بڑی آسانی سے اور بڑے احسن انداز میں لگتے ہی جارہے ہیں اور یہ بھولتے جارہے ہیں کہ ہماری روایات ہماری تہذیب ہمارا تمدن ہمیں کیا سکھاتا ہے ہم یہ بھول گۓ کہ ہمارا مذہب ہمارا اسلام ہمارے اسلاف ہمارے آباؤ اجداد ہمیں کیا درس دے کر گۓ نہ ہمیں اپنے اسلاف کا پڑھایا گیا سبق یاد ہے نہ ان کی دی گئ قربانیاں، ہمیں اب یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مسلمان ہونے کے کچھ تقاضے ہیں ان تقاضوں کا پورا کرنا ہم پر لازم و ملزوم ہے ، مسلمان ہونا اور مسلمان کہلانا کوئ آسان سی بات نہیں بلکہ
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
اور لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
٭٭٭
آخر میں وہ لوگ جو اس تحریر سے مکمل اختلاف رکھتے ہیں میں ان کے نقطہ نظر کی تعظیم کرتے ہوۓ ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صاحب آپ کو آپ کا نقطہ نظر مبارک ہمیں اقبال کا فلسفہ مبارک کہ
نظر نہیں ہے تو میرے حلقہ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہاۓ خودی ہے مثال تیغ اصیل