قارئین محترم!
8 مارچ کا دن صنف نازک کے اعزاز میں عالمی یوم خواتین کے طور پر دنیا بھر میں سالہا سال سے منایا جا رہا ہے ، مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ خواتین کی تعظیم اور احترام فقط ایک دن تک کے لیے محدود ہے بلکہ ان کی تعظیم ہمارے دین نے ہر لمحہ ہر گھڑی ہم پر قریب بہ واجب کردی ہے ۔ ۔
اور اگر دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھا جاۓ تو ہمارا ہر دن ہر لمحہ ہماری خواتین ہی کے دم سے ہے ، یہ خواتین جو ہماری ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں ، اور دیگر کئ رشتوں کی صورت میں ہمیں ہر سہولت مہیا کرنے کے کے لیے بلا معاوضہ ہمہ وقت ہمارے اردگرد موجود رہتی ہیں اور ہماری غیر موجودگی میں ہمارے حق میں ہماری خیر و عافیت کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہیں بلکہ اگر یوں کہوں کہ ”اکثر کامیاب مردوں کی کامیابی انہی خواتین کی دعاؤں کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے “ تو بھی کچھ غلط نہ ہوگا ۔ ۔ ۔
قارئین کرام ! انسان کی فطرت اور نفسیات میں یہ عنصر بھی ہے کہ انسان کو کسی شے کی قدر و وقعت تب ہی معلوم ہوتی ہے جب وہ شے غیر موجود ہو بالکل اسی طرح اپنے گھر کی خواتین کی قدر و وقعت بھی ان کی غیر موجودگی میں ہی ہوا کرتی ہے ہم میں سے تقریباً ہر ایک نے زندگی میں کبھی نہ کبھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا ضرور کیا ہوگا کہ اگر گھر کی خواتین کچھ روز کے لیے کسی رشتے دار کے یہاں چلی جائیں تو پھر صاحبان خانہ کو صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے کہ جناب کتنے بیس کے سو ہوتے ہیں ، اس صورتحال میں جب گھر میں اپنے کپڑوں سے لے کر جرابوں تک ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لیے خواتین کو فون کرکے معلوم کرنا پڑے تو پھر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ بلاشبہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
قارئین کرام!
عورت کو جو مقام جو مرتبہ اسلام نے عطا فرمایا اس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی
یہ اسلام ہی تھا جس نے سب سے پہلے خواتین کا چارٹر آف رائٹ پیش کیا اور عورت کو وہ مقام بخشا جس کا تصور اس سے قبل ممکن ہی نہیں تھا ، اسلام سے قبل عورت کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا تھا وہ بھی کسی سے ڈھکاچھپا نہیں اسلام سے قبل لفظ عورت ایک گالی بن چکا تھا اور جاہلیت اس قدر عام ہو چکی تھی کہ جس کے گھر بچی پیدا ہوتی وہ اسے زندہ زمین میں درگور کردیا کرتا تھا لیکن یہ اسلام ہی تھا جس نے اس قبیح فعل کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کے خلاف مناسب اقدامات لے کر اس جرم و بربریت کو معاشرے سے ختم کیا اور عورت کو یہ مقام بخشا کہ وہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے
خداوند کریم نے خواتین کو معاشرے میں وہ اعلی مقام عطا کیے ہیں کہ ان کا ہر روپ پروردگار عالم کی رحمت اور عنایات کا مظہر ہے
خاتون جب ماں کی صورت میں ہو تو اولاد کے لیے رحمت خدواندی کا مظہر کہلاۓ ، جب بیوی کی شکل میں ہو تو شوہر کے لیے آدھا ایمان کہلاۓ ، جب بیٹی کی صورت میں ہو تو باپ کے لیے رحمت پروردگار کہلاۓ ، اور یہی خاتون جب بہن کی صورت میں ہو تو بھائ کے سر کا تاج اور اس کی عزت کہلاۓ ۔ ۔ اس بات سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے خواتین کو معاشرے میں کس قدر اعلی مقام عطا فرمایا ہے ۔ ۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر خاتون کو اتنا پروٹوکول عطا کیا ہے کہ فقط ایک خاتون کی حفاظت کے لیے اسے چار چار مردوں کی ذمہ داری بنایا ، عورت کا سب سے پہلا محافظ اس کا باپ ، دوسرا محافظ اس کا بھائ ، تیسرا محافظ اس کا شوہر اور چوتھا محافظ اس کا بیٹا ، چار چار محافظ عطا کرکے ایک خاتون کو جو پروٹوکول خدا نے عطا کیا اس کی مثال پوری کائنات میں اور کہیں نہیں ملتی ۔ ۔
حضور شافع پرنور ﷺ جب دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل بستر علاللت پر جلوہ افروز تھے ، اصحاب رسول ﷺ بلکہ کائنات کی ہر شے پریشان اور بجھی بجھی سی معلوم ہورہی تھی ہر ایک شے کو حضور ﷺ کی مبارک صحت پر شدید بیماری کی حاضری پریشان کررہی تھی اور حضور ﷺ کی جدائ کا خوف ستا رہا تھا اس وقت رحمتہ العالمین ﷺ نے شدید جسمانی کمزوری کے باوجود اپنے صحابہ سے ایک مختصر خطبہ فرمایا جو حضور ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ کے آخری خطبہ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ، اس الوداعی خطبے میں بھی حضور رحمتہ اللعالمین ﷺ نے جن چند باتوں کی تاکید فرمائ ان میں بھی ایک تاکید عورتوں ہی کے حقوق کی تھی ، حضور جان عالم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ
فاتقو اللہ فی النساء
فاتقو اللہ فی النساء
فاتقو اللہ فی النساء
اے لوگو !
عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور
”میں (محمد ﷺ) تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں “
سرکار دوعالم ﷺ کے آخری خطبے میں بھی خواتین کا ذکر ان کی قدر و وقعت اور اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے عورت کو کس قدر عزت و وقار عطا کیا ہے
قارئین ذی وقار ! معاشرے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کا انحصار مرد اور عورت دونوں ہی پر ہوا کرتا ہے ، ایک عورت اپنی اولاد کی پرورش کرکے اسے معاشرے کا کارآمد شہری بناتی ہے جو معاشرے کی فلاح میں اپنا کردار ادا کرتا ہے گویا کہ معاشرے کی ترقی کا بلاواسطہ تعلق ماں کی پرورش سے بھی ہے ۔ ۔
مرد اور خواتین دونوں ہی کو خداۓ دوعالم نے الگ الگ صلاحیات کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے ، جہاں مرد کو قوت بازو ، جرات و بہادری وغیرہ سے نوازا ہے وہیں خواتین کو گھرداری و امور خانہ کی وہ بے بہا صفات عطا کی ہیں جو خواتین ہی کا خاصہ ہیں ایک طرف مرد کو سنگین حالات سے نمٹنے کے لیے رعب و دبدبہ اور سخت طبیعت عطا کی تو دوسری جانب عورت کو نرمی اور رحمدلی سے نوازا ، گویا کہ مرد اگر سایہ دار درخت کی مانند ہے تو عورت اس درخت کا سایہ ہونے کی سی اہمیت رکھتی ہے مطلب یہ کہ دونوں میں سے کسی ایک کے بغیر بھی معاشرہ نامکمل سا معلوم ہوتا ہے، لہذا مرد اور عورت کا تقابل تو ازخود جہالت ہے، مرد اور عورت تقابل کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کو مکمل کرنے کے لیے تخلیق کیے گۓ ہیں ۔ ۔ لیکن کاش کہ یہ بات چند لنڈے کے دانشوڑ پڑھے لکھے جاہل فیمینیسٹ حضرات کو سمجھ آسکتی ۔ ۔
بہرحال حتمی بات یہ کہ مردوں کے لیے حضور جان عالم ﷺ کا اسوہ حسنہ اور خواتین کے لیے خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا اور امہات المومنین کا اسوہ حسنہ بہترین مثال ہے ، لہذا امت مسلمہ کی خواتین کسی کو رول ماڈل بنانا چاہیں تو حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو رول ماڈل بنائیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو رول ماڈل بنائیں کہ ان کے نقش قدم پر چل کر ان کے فرامین پر عمل کرکے خواتین اسلام دنیا ومافی ھا کی تمام عزتیں اور تکریم حاصل کرسکتی ہیں اور یہی وہ طرز و طریقہ ہے جو دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ ۔