کرونا وائرس اور ہمارا حال زار

0

CoronaVirus-and-us

قارئین محترم

آج کل دنیا بھر میں بڑی نازک سی صورتحال ہے !

دنیا ساقط و حواس باختہ ہے ، وقت سہما ہوا اور ماحول تناؤ کا شکار ہے ہر شخص پریشان و خستہ حالی کی تصویر بنے فقط ایک بظاہر معمولی دکھائ دینے والی شے کی تباہکاری سے خوف زدہ ہے اور وہ شے کوئ اور نہیں بلکہ "کرونا وائرس" ہی ہے ۔ ۔

موجودہ حالات میں دنیا حیران و پریشان ہے کہ آخر یہ آن کی آن میں ہو کیا گیا ، کچھ عرصہ پہلے تک سب ٹھیک تھا پھر اچانک سے یہ کرونا وائرس آیا اور دنیا ویران سی ہوگئ


لیکن دنیا والے شاید یہ نہیں جانتے کہ وہ رب بڑا قادر مطلق ہے اس کی بادشاہی روح ارض و سما چرند پرند ، شجر و حجر سب پر ہے ، وہ مسلمانوں کا بھی رب ہے وہ کافروں کا بھی رب ہے وہ کشمیریوں کا بھی رب ہے اور وہ فلسطینیوں کا بھی رب ہے ، اور وہ رب عالم دنیا میں ہونے والے تمام ظلم و بربریت بھی دیکھ رہا ہے اور مظلوموں کی آہ و فغاں بھی سن رہا ہے عین ممکن ہے کہ یہ ان مظلوموں کی صدا اور بددعا کا نتیجہ ہو ، اسی زمین پر بسنے والوں نے کشمیر میں کرفیو لگایا تھا نہ اب اس خدا نے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن لگا دیا ہے ، جو لوگ ظالم تھے ان کو ان کی جزا مل رہی ہے اور جو خاموش تماشائ بنے بیٹھے تھے وہ بھی بھگت رہے ہیں ، یہ امریکا یہ یورپ اٹلی فرانس یہ سب طاقت کے نشے میں خود کو ناقابل تسخیر سمجھ بیٹھے تھے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ خدا جب اپنی خدائ دکھاتا ہے تو فرعون جیسے طاقتور بادشاہ کو پانی کے ایک غوطے میں غرق کر دیتا ہے تو کہیں نمرود جیسے متکبر بادشاہ کو ایک معمولی سے مچھر کے ذریعے موت دے دیتا ہے وہ خدا تو ایسا قادر مطلق ہے کہ ہاتھیوں کے لشکر کو چھوٹے سے ابابیل کے ذریعے نیست و نابود کرتا ہے ، اور اب کی بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ ایک بظاہر معمولی سے وائرس کے ذریعے عالمی طاقتوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ، دوسری بات کہ یہ جو کرونا ہے یہ دنیا بھر کے ملحد اور ایٹھسٹ حضرات کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو کہا کرتے تھے کہ دنیا میں کوئ خدا نہیں ہے ، اگر واقعی خدا نہیں ہے تو پھر یہ کرونا کہاں سے آگیا ، اور میرا یقین ہے کہ اس بات کا جواب یہ ساری عمر نہیں دے سکیں گے ، یہ بظاہر معمولی سا کرونا وائرس دنیا بھر کے ملحدوں کو یہ بتا گیا ہے کہ

واللہ واحد القھار

 کرونا وائرس کا آنا اور اس طرح کی تباہ کاری مچانا اپنی جگہ ، اس کے آنے کی وجوہات اپنی جگہ لیکن اگر بات کریں پاکستان کی اندرونی صورت حال اور پاکستانیوں کی حالت زار کی تو وہ بھی کچھ خاص بہتر معلوم نہیں ہوتی ، ابھی میں پچھلے دنوں ہی اپنی ٹیم کے ساتھ راشن کی تقسیم اور دیگر ضروری اقدامات کے حوالے سے، اپنے شہر کے وزٹ پر تھا تو یہ میری آنکھوں دیکھا مشاہدہ ہے کہ ، عوام کا کوئ پرسان حال نہیں ہے ، ایک طرف تو غریب لوگ روزگار اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں اور دوسری جانب میڈیکل اسٹاف حفاظتی کٹس نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں ، صوبائی حکومتوں نے بھی راشن کا وعدہ کیا ہوا ہے جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہو سکا اور شاید کبھی پورا بھی نہ ہو سکے ، کیونکہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجاۓ

لہذا اس صورتحال میں ہم لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے اہل محلہ اور آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھیں ، کوشش کریں کہ ہمارے ارد گرد اور بالخصوص ہمارے علاقے اور پڑوس میں کوئ شخص بھی بھوکا نہ سوۓ ،

 اور خدارا مہربانی کریں اس وائرس کو سنجیدہ لیں یہ کوئ مذاق نہیں ہے ، یہ وہ قاتل وائرس ہے جس نے نہ جانے کتنی ماؤں سے ان کی اولادیں چھین لیں کتنی اولادوں سے ماں جیسی دولت چھین لی کسی کے بھائ تو کسی کی بہنیں اس وائرس کی نذر ہوگۓ ، کتنے ہی خاندان اجڑ گۓ نہ جانے کتنے ہی شہر ویران ہوگۓ ، اور اب بھی جس طرح کی صورتحال چل رہی ہے ، اس میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حکومت کا ساتھ دینا چاہیے ، جس قدر ممکن ہوسکے اپنے گھروں میں رہیں اور جو احتیاطی تدابیر بتائ گئ  ہیں اس پر سختی سے عمل کریں اور گھروں میں رہتے ہوۓ دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیں ، احتیاط کریں کیونکہ احتیاط ہی واحد حل ہے ۔ ۔


یہ تو ہے ملکی حالات کا ایک جائزہ لیکن اگر بات کریں اس وبائ صورتحال میں وفاقی اور صوبائ حکومتوں کی کارکردگی کی تو زبان سے بے ساختہ صد ہاۓ افسوس کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں

حالانکہ بظاہر سندھ حکومت ہو پنجاب حکومت ہو یا وفاقی حکومت ، ہر کوئ اپنی جانب سے پوری کوشش کرتا دکھائ دےرہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کو اس صورتحال سے نکالا جاۓ ،

 لیکن اگر تمام حکومتوں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ کریں تو اس دفعہ سندھ حکومت اور خاص طور پر مراد علی شاہ صاحب نے بڑے بہترین اقدامات کیے ہیں جن کے باعث صوبہ سندھ میں کافی حد تک فائدہ ہوا ہے

 پنجاب حکومت کی مثال تو اندھے شخص کی سی ہے جو کسی اور کے کندھے کا محتاج ہوا کرتا ہے پنجاب حکومت کی ناقص پالیسیوں کا خمیازہ اب پنجاب کی عوام بھگت رہی ہے کہ اب دیکھا جاسکتا ہے وہاں کرونا کے کیسز سندھ میں موجود کیسز سے دگنے ہوچکے ہیں جو کہ المیہ ہے ،

باقی اگر صوبائ حکومتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی بات کریں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت خود چاہتی ہے کہ پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد بڑھے ، اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وفاقی حکومت کیا چاہتی ہے لیکن ان کی حرکتیں تو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ وہ پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد کو بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ، چاہے وہ ایرانی زائرین کو پاکستان میں آنے کی اجازت دینا ہو ، بارڈر کھولنے کی بات ہو فضائ آپریشن بحال رکھنا ہو ، زلفی بخاری کی حرکتیں ہوں ، لاک ڈاؤن نہ کرنے کا بےوجہ سا فیصلہ ہو یا پھر دیگر کئ فیصلے ۔ ۔  ہر موقعے پر ایسا لگا کہ گویا وفاقی حکومت خود سے اس بات کی آرزو مند ہے کے ملک میں وبا پھیلے ۔ ۔ کاش کہ میرا تخمینہ غلط ہو لیکن بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے
وفاقی حکومت نے حال ہی میں ٹائیگر فورس کا قیام عمل میں لایا جو بے وجہ اور غیر ضروری فیصلہ معلوم ہوتا ہے اس ملک میں لاکھوں قسم کی فورسز ، ٹیمیں اور ورکرز موجود ہیں اگر ان ہی کو ان کی رضا کے مطابق رضاکارانہ طور پر یہ کام سونپ دیا جاتا تو زیادہ اچھے ثمرات دیکھنے کو مل سکتے تھے وہ یوں کہ ایک تو وقت اور خرچہ بچ جاتا ، دوسری بات یہ کہ یہ ورکرز سالوں سے اپنے اپنے علاقے میں کام کررہے ہیں انہیں ہر ایک کے گھروں کا ان کے وسائل کا ان کی غربت کا ان کے بچوں کا ان کے رشتے داروں کا بلکہ ہر ایک چیز کا علم بھی ہوتا ہے اور ان کا ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے ، جبکہ ان نۓ آنے والے ٹائیگر فورس کو شاید کئ ماہ تو فعال ہونے اور سیکھنے میں ہی لگ جائیں گے اور ان شاءاللہ تب تک تو پاکستان بلکہ پوری دنیا سے کرونا ہی کا خاتمہ ہوجاۓ گا

 بہرحال سیاسی بات چیت چل رہی ہے تو یہاں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ وقت تنقید براۓ تنقید کا نہیں موجودہ وقت میں تمام پارٹیز کو مل کر ملک و قوم کی خاطر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، باقی اگر کہیں کوئ تنقید ہو بھی رہی ہے تو اسے بھی مثبت طور پر لینا چاہیے اور اس تنقید کی بنیاد پر اپنے اقدامات کو مزید بہتر کرنا چاہیے ـ ـ
 اس وقت پاکستان پر ایک بار پھر برا وقت آیا ہوا ہے لیکن برے وقت کی بھی ایک خاصیت ہوتی ہے کہ یہ گزر جاتا ہے ، لہذا یہ وقت بھی گزر جاۓ گا اور ان شاءاللہ ایک بار پھر پاکستان کی رونقیں بلکہ کشمیر سمیت دنیا بھر کی رونقیں دوبارہ بحال ہو جائیں گی


آج کی نشست میں اتنی باتیں کافی ہیں لیکن آخر میں اپنے ملک کے فلاحی اداروں ، تنظیموں اور سماجی کارکنوں کی حوصلہ افزائ کے لیے کچھ باتیں کرنا ضروری سمجھتا ہوں

قارئین کرام !
آپ گزشتہ کچھ دہائیوں کی پاکستانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، پاکستان پر جب کبھی مشکل وقت آیا ہے ان فلاحی اداروں اور پاکستان کے مخیر حضرات نے اپنی قوم کے لیے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا ہے ، آپ کو یاد ہوگا جب 2005 میں زلزلہ آیا تب بھی یہ ادارے صف اول میں نظر آرہے تھے ، جب کچھ سال قبل سیلاب نے پاکستان میں تباہیاں مچائیں ، جب شمالی وزیرستان میں آپریشن کے دوران آئ ڈی پیز کا مسئلہ پیش آیا یا دیگر کوئ بھی آفت و پریشانی کا وقت آیا ہر اس مشکل وقت میں یہ فلاحی تنظیمیں اور مخیر حضرات سب سے آگے نظر آۓ ، اور یقین کریں اب بھی جب میں ان تنظیموں کے ورکرز کو اس وبائ صورتحال میں کام کرتے ہوۓ دیکھتا ہوں تو ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ میرا تعلق اس قوم سے ہے جو قوم مشکل کی گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کو بے آسرا نہیں چھوڑتی ۔ ۔  اب بات اس طرف آ ہی گئ ہے تو ایک بات کا مزید اضافہ کرتا چلوں کہ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو کہیں کسی فیمینیسٹ کی کوئ تنظیم نظر نہیں آۓ گی ، کہیں کوئ بیرونی فنڈڈ تنظیم نظر نہیں آۓ گی کہیں کوئ لبرل بندہ امدادی کام یا غریبوں کا بھلا کرتا نظر نہیں آۓ گا ، مشکل کی اس گھڑی میں یہ سارے اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گۓ ، اس مصیبت کی گھڑی میں قوم کی خاطر کھڑے ہونے والے یہی عام سے مسلمان اور مذہبی ذہنیت کے احباب نظر آئیں گے ، اور میں یہاں ان سب فلاحی تنظیموں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو راشن کی تقسیم سے لے کر تھیلیسیمیا کے مریضوں کی خاطر خون جمع کرنے تک قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ، اللہ ان سب کو ان امدادی اور فلاحی کاموں کا بے بہا اجر عطا کرے ۔ ۔ لیکن یہ وقت ہے کہ میری قوم اپنے محسنوں اور بیرونی فنڈڈ ملک دشمن عناصر کے درمیان فرق محسوس کرے ۔

اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو 


Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top