گزشتہ کچھ ماہ سے پاکستانی سیاسی، سماجی، معاشی اور عدالتی نظام کو دیکھ کر اندھیر نگری کا چوپٹ راج یاد آگیا ۔ ۔
دراصل قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک علاقہ تھا جو اپنے نظامِ حکومت اور الٹے فیصلوں کی وجہ سے اندھیر نگری کے نام سے مشہور تھا ۔ ۔ وہاں کے راجا جی خود کو بہت سمجھدار، انصاف پسند، بہادر اور با اصول سمجھتے تھے ۔ ۔ انہوں نے وزراء اور مشیران کی ایک فوج بھی بھرتی کر رکھی تھی جن کا سب سے بڑا کام دن رات راجا جی کی خوشامد کرنا تھا۔ راجا جی نے ساتھ ہی خود کو قاضی القضاۃ کے عہدے پر بھی فائز کر رکھا تھا۔
راجا جی نے سارے راج میں ہر اک شے کے نرخ ایک جیسے مقرر کر رکھے تھے ۔ یعنی ہر چیز ایک ٹکے کی ایک کلو ملا کرتی تھی، اور یوں اپنے طور پر انہوں نے مہنگائی کو قابو کر رکھا تھا ۔ ۔
ایک دفعہ ایک گُرو اور اس کا چیلا گھومتے پھرتے اندھیر نگری آ نکلے ۔ ۔ جب چیلے کو معلوم پڑا کہ یہاں تو ہر چیز ہی ایک ٹکے کی ہے، تو وہ بڑا خوش ہوا اور گرو سے کہا کہ گرو جی، بس اب تو یہیں لمبا قیام کریں گے، خوب کھائیں گے پئیں گے ۔ ۔
گرو ذرا سیانا تھا، بولا، چیلے یہ خطرے کی بات ہے، ایسی جگہ جہاں سب دام برابر ہوں میں نے پہلے نہیں دیکھی، نہ جانے یہاں مزید کیا کچھ ہوتا ہوگا ، چل یہاں سے نکلتے ہیں، کسی اور مصیبت میں ہی نہ پڑ جائیں۔ ۔ چیلا نہ مانا تو اس کی ضد کے آگے گرو بھی مجبور ہوکر وہیں ٹھہر گیا۔ چیلا کھانے پینے کا بہت شوقین تھا، خوب کھاتا پیتا اور مزے اڑاتا، کھا کھا کر موٹا بھی ہو گیا۔
ایک دن راجا جی کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ ایک کوچوان کے گھوڑے کے بدکنے سے گھوڑا گاڑی الٹی اور ایک آدمی نیچے دب کر ہلاک ہوگیا ۔ ۔ راجا نے کوچوان سے کہا کہ تمہیں پھانسی دی جائے گی ۔ ۔
پر جیسا راجا ویسی عوام ۔ ۔
کوچوان بولا، جناب میرا کیا قصور، ایک عورت جس کے پیروں میں پایل تھے، وہ گھوڑے کے قریب سے گزری تو شرارتاً پیر زور سے چھن چھنائے جس سے گھوڑا بدکا، ذمہ دار تو پھر عورت ہوئی ناں ۔ ۔
عورت کو بلایا گیا، اس نے کہا کہ سنار نے پایل میں چھنچھناہٹ تیز بنائی ہوئ تھی، میں تو آرام سے ہی چل رہی تھی، لہذا سنار ذمہ دار ہے ۔ ۔
القصہ مختصر سنار کو بلایا، تو اس نے ذمہ داری کسی اور پر گھما کر اپنی جان بچائی ۔ ۔ یہ سلسلہ کافی لمبا چلا اور بالآخر ایک فرد بے چارہ ایسا پھنس گیا جس کو کوئی بہانہ نہ مل سکا ۔ ۔ چنانچہ اس روتے بلکتے شخص کو پھانسی گھاٹ لے جایا گیا۔ ۔ جلاد نے پھندا اس کے گلے میں ڈلا تو وہ پھندا ڈھیلا نکلا، راجا کو بتایا گیا ۔ ۔
وہ گُرو اور چیلا بھی وہاں پھانسی کا تماشا دیکھنے کو کھڑے تھے، تو راجا نے کہا کہ ترتیب وار تمام ملزمان جو تفتیش سے گزرے ہیں سب پر پھندا ڈال کے دیکھا جائے، جس کو بھی پھندا گلے میں فِٹ آجائے اسے ہی پھانسی دے دی جائے، اتفاق سے سارے ہی ملزمان پتلی گردن کے تھے چناچہ پھندا کسی کو بھی فِٹ نہ آ سکا ۔ ۔
راجا بڑا حیران ہوا، کچھ سوچ بچار کے بعد حکم جاری کیا کہ یہ جو مجمع تماشا دیکھنے آیا ہوا ہے اس میں سے تلاش کرو کہ سب سے موٹی گردن کس کی ہے اسے ہی پھانسی دے کر انصاف کا بول بالا کیا جائے ۔ ۔
چیلا جو کھا کھا کر سانڈ ہو چکا تھا، وہ زد میں آ گیا اور اس کے گلے میں پھندا بھی فٹ ہوگیا ۔ ۔ اسے لے جانے لگے تو وہ زور سے چیخا کہ گُرو جی بچاؤ، گُرو نے غصہ سے کہا، میں نہیں کہتا تھا کہ یہاں سے نکل چل، اب بُھگت ،، چیلا اب دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ ۔
گُرو کو ترس آ گیا، اس نے راجا سے کہا کہ میرے چیلے کی بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ راجا نے حیران ہوکر اس بات کی وجہ دریافت کی کہ بھئی گرو جی تم کیوں اپنی جان گنوا رہے ہو ؟؟
تو گُرو نے جواب دیا کہ راجا جی، میرے علم اور حساب کتاب نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو بھی پھانسی چڑھے گا، سیدھا سوَرگ (جنت) میں جائے گا۔ تو میں اب جنت میں جا کر مزے کیوں نہ کروں ۔ ۔ راجا نے یہ سن کر کہا کہ یہ بات ہے تو پھر سورگ میں "میں خود" جاؤں گا ۔ ۔ یہ کہہ کر راجا پھانسی پر جھول گیا اور گُرو اور اس کا چیلا سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ نکلے ۔ ۔
اب یہاں سوال صرف یہ ہے کہ گُرو نے تو اپنے چیلے کو اندھیر نگری کے اندھیر سے کسی طرح بچا ہی لیا، لیکن ہمیں کون بچائے گا ؟؟؟؟