درج بالا تصویر لندن کے قریبی شہر "گرین وچ" کی ہے، جہاں پرانے اور ناکارہ ٹیلیفون بوتھ کو موبائل لائبریری میں بدل دیا گیا ۔ ۔ سال 2018 میں یہ رواج برطانیہ بھر میں پھیلنے لگ چکا تھا ۔ ۔ یہ چھوٹی چھوٹی موبائیل لائیبریریز برطانیہ کی کئ ایک شاہراہوں اور گلیوں میں آپ کو نظر آجائیں گی ۔ ۔ جہاں سے آپ بغیر کسی رجسٹریشن کے اپنی مرضی کی کوئ بھی کتاب گھر لے جا سکتے ہیں اسے پڑھ کر دوبارہ یہاں واپس رکھ دیں ۔ ۔ اگر آپ کے پاس کوئی کتاب اضافی ہے تو وہ بھی آپ یہاں رکھ سکتے ہیں ۔ ۔
اس فون باکس میں آپ کو کھانا پکانے کی کتابوں سے لے کر کلاسیکی ، فکشن، بلاک بسٹر اور بچوں کی کتابوں تک ہر قسم کے عنوانات دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔ ۔
مگر ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمارے ذہن میں جو پہلا خیال آتا ہے وہ یہ کہ
”یہ کتابیں چوری کیوں نہیں ہوتیں ؟؟؟“
کیونکہ ہم جس معاشرےاور قوم سے تعلق رکھتے ہیں وہ ذرا اسی مزاج کی ہے ۔ ۔ افسوس کے ساتھ ہمارے یہاں پاکستان میں تو کتابی حلقوں کے بیچ مشتاق یوسفی صاحب کا یہ طنز ہی زباں زدِ عام ہوچکا ہے کہ :
”جس نے آپ کو کتاب دی، اس کی بے وقوفی اور جس نے کتاب واپس کر دی وہ اس سے بھی بڑا بے وقوف“
لیکن وہ مہذب معاشرے جہاں کتب بینی کی روایت اب بھی صحیح معنوں میں زندہ ہے وہاں مزاج بھی قدرے مختلف ہے ۔ ۔ ایک مشہور عراقی کہاوت ہے کہ :
"Readers don't steal and stealers don't read"
”جو شخص کتاب پڑھتا ہے وہ چوری نہیں کرتا اور جو چوری کرتا ہے وہ کتاب نہیں پڑھتا“
لیکن ہمارے یہاں تو الٹی گنگا ہی بہا کرتی ہے ، کہ جو کتاب پڑھتا ہے وہ بھی خریدنے کے بجاۓ اپنی پسند کی کتاب کہیں نہ کہیں سے ہتھیا لیتا ہے ۔ ۔
اگر یقین نہیں آتا تو دو چار اعلیٰ درجے کی کتابیں خرید لیں، اور چند ہی روز میں اگر وہ چوری نہ ہوجائیں تو پھر کہیے گا ۔ ۔ اور اس پر ستم بالاۓ ستم یہ کہ چرانے والے احباب بڑا سا منہ بنا کر کہیں گے کہ
"جناب پڑھنے کے لیے ہی تو لی ہے ہم نے کون سی کھا جانی ہے" ۔ ۔
دراصل اس میں قصور چور صاحب کا بھی نہیں کہ کتب بینی ایک چسکا ہے، جسے لگ جائے تو پھر وہ کہیں کا نہیں رہتا، ایسے احباب کے لیے اچھی کتاب کسی محبوبہ سے کم نہیں کہ جہاں نظر پڑی، بس اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگ پڑے ۔ ۔شاعر صاحب تو پہلے ہی فرما گئے کہ ؎
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر
صاحبو !! کتب سے رشتہ جوڑے رکھیے اور خوش رہیے ۔ ۔ کبھی آپ کو اندازہ ہو کہ کوئ آپ کی کتاب کو ہاتھ سے چھوڑتا ہی نہیں اور کتاب سے محبت اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہے تو دل نرم کیجیے اور اپنی آنکھیں بند کر لیجیے۔ ۔ کہ یہ بھی ایک طرح کا صدقہ اور نیکی ہے ۔ ۔ دل پر بوجھ نہ لیں ۔ ۔ کتاب کا کیا ہے، آپ کی چیز ہے، اس پر آپ کا نام ثبت ہے اور ہمیشہ رہے گا لیکن اگر کوئ اور بھی اس کتاب سے مستفیض ہوجاۓ تو آپ کا کیا نقصان ۔ ۔
بلکہ ایک ادیب صاحب تو اپنی دیرینہ خواہش بتاتے ہوۓ کہتے ہیں کہ :
میں چاہتا ہوں
اس بڑے شہر کے
بڑے بازار میں
ادبی کتابوں
کی ایک بڑی دکان کھولوں
اور روزانہ کھلی چھوڑ کر
شام کو صرف یہ پتا کرنے جاؤں کہ
کوئی کتاب چوری ہوئی بھی کہ نہیں
اگر ہوئی تو
خوشی سے رقص کروں ۔ ۔ ۔
لہذا ان ادیب صاحب کی طرح آپ کی بھی اگر کوئ کتاب کبھی چوری ہوجاۓ تو بجاۓ افسوس کرنے کہ ذرا سا مسکرائیں کہ اس کتابوں سے دوری کے زمانے میں بھی آپ کی کتاب ایک اور ذہن کی آبکاری کرنے کے قریب ہے ۔ ۔❤📙
وگرنہ زمانہ تو ایسا آچکا کہ اب :
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں ۔ ۔
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں
اب اکثر۔ ۔
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے ۔ ۔