14 اگست 1947 کو اک اعلان ہوتا ہے اہل دنیا کو بتلا دیا جاتا ہے کہ پاکستان معرض وجود میں آچکا ۔ ۔ اسلام کا قلعہ، مسلمانوں کی امیدوں کا محور، اقبال کے خوابوں کی تعبیر ، جناح کی کوششوں کا ثمر ، مسلمانان ہندوستان کے عزم و حوصلے اور قربانیوں کا انعام ، مملکتِ خدادادِ پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوچکا ۔ ۔
اہل دنیا اب جان لیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلامی کے قوانین پر سرعام عمل ہوگا ۔ ۔ جس نظریہ اسلام کے پرچار پر ہندوستان میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں ۔ ۔ اسی نظریے کا پرچار اب پاکستان میں سربازار کیا جاۓ گا ۔ ۔ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پیغام دیا جاۓ گا کہ ہمیں تمہارے سرمایہ دارانہ اور جبر و زیادتی سے بھرپور نظام کی کوئ ضرورت نہیں ۔ ۔ ہمارے لیے ہمارا اسلام ، ہمارا قرآن ، ہمارا آفاقی اور الٰہی نظام کافی ہے ۔ ۔ ہم تجارت کریں گے تو اسی نظام کے مطابق ، ہم حکومت کریں گے تو بھی اسی نظام کے مطابق ۔ ۔ کلمۂ توحید و رسالت پر بننے والے اس ملک کا نظام بھی اسلام کے مطابق ہوگا اور آئین و قانون بھی ۔ ۔ ہم اک ایسی تجربہ گاہ بنانے میں کامیاب ہوچکے جہاں اسلام کے قوانین اور اصول و ضوابط پر سرعام زندگی گزاری جاۓ گی ۔ ۔ دنیا جان لے کہ ہم ایک خدا کے ماننے والے ایک قوم ایک شناخت بن کر دن رات محنت کریں گے ، اور خود کو اس قابل بنائیں گے کہ دیگر اقوام عالم کی امامت کرسکیں ۔ ۔
لیکن افسوس در افسوس
کہ آج 75 سال بعد اس قوم کا وزیر اعظم منچ پر کھڑے ہو کر انتہائ بے شرمی سے کہتا ہے کہ :
”میں یہاں آیا ہوں تو آپ سمجھیں گے کہ میں مانگنے آیا ہوں ، نہیں میں مانگنے نہیں آیا لیکن مجبوری ہے“
افسوس کہ جس قوم نے ساری دنیا کی امامت کرنی تھی وہ قوم آج دنیا بھر کی مقروض ہے ۔ ۔ افسوس کہ جس قوم نے 75 برس قبل دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا وجود منوایا تھا وہی قوم آج دنیا کے سامنے سر جھکاۓ حالات کا رونا رونے میں مصروف ہے ۔ ۔
افسوس کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارے میں جتنے خواب دیکھے گۓ وہ کبھی شرمندۂ تعبیر ہی نہیں ہوسکے ۔ ۔ یہاں بیرونی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے اسلام کا نظام اور قوانین نافذ کرنا تو درکنار یہاں تو اسلام کے منافی قوانین بنا دیے گۓ ، سود جیسی لعنت کو قوم پر مسلط کردیا گیا ۔ ۔ اور اگر کوئ اسلام کا نام لینے لگے تو اسے دہشتگرد کہا جانے لگا ، قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا جانے لگا ۔ ۔ تھانے، کورٹ کچہریوں کے چکر لگواۓ جانے لگے ، دقیانوسی سوچ کا لیبل لگایا جانے لگا ۔ ۔ وہ قوم جس نے فقط خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونا تھا وہ قوم مغربی آقاؤں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے لگی ۔ ۔ جن بیرونی قوتوں سے ہم نے 75 سال پہلے آزادی حاصل کی تھی آج پھر انہی بیرونی قوتوں کے غلام ہوچکے ۔ ۔ بقول شاعر
میں نے کچھ خواب تمہارے لیے دیکھے تھے میاں
میرے ان خوابوں کا کچھ مول نہ پایا تم نے
میں نے سوچا تھا کہ شاہین بنو گے پیارے
چیل کووں سے ہے یارانہ لگایا تم نے ۔ ۔
آج 75 برس بعد ہمارے پاس ایسا کچھ بھی نہیں کہ ہم روڈوں پر نکل کر غل غپاڑہ کرسکیں یا گلی محلوں میں نکل کر جشن کی آڑ میں باجے بجا سکیں ۔ ۔ آج 75 سال بعد ہمیں جشن منانے کی نہیں بلکہ اک قوم بننے کی ضرورت درپیش ہے ۔ ۔ وہی قوم جو آج سے 75 برس پہلے ہوا کرتی تھی ۔ ۔ بے خوف ، نڈر اور پرسوز ۔ ۔ اور یاد رکھیں کہ قوم ہمیشہ نظریے سے بنتی ہے ۔ ۔ اور کوئ بھی نظریہ اسلام کے نظریے سے بہتر نہیں ہوسکتا ۔ ۔
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ، محفل انجم بھی نہیں
لہذا یہی وقت ہے ۔ ۔ نظریہ اسلام کے ساۓ میں متحد ہونے کا ۔ ۔ پھر سے ایک قوم بننے کا ۔ ۔ چھوڑیں سب سیاسی وابستگیاں ۔ ۔ ذات برادری اور قومیت کے امتیاز کو ۔ ۔ متحد ہوں ایک قوم بنیں اور عالم دنیا میں پھر سے ایک مقام بنائیں ۔ ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے تا بہ خاکِ کاشغر
اور
سبق پھر پڑھ عدالت کا صداقت کا شجاعت کا
لیا جاۓ گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ۔ ۔
احمد بلال 🌻