آپ کو سن کر شاید تعجب ہو، لیکن مملکت خداداد پاکستان میں آج کل روزمرہ کی زندگی گزارتے ہوئے بھی خود کو بہت سی چیزوں میں مجرم محسوس کرتا ہوں ۔ ۔ میرا نقطءِ نظر آپکی نظر میں فضول بھی ہوسکتا ہے لیکن یقین جانیں یہ مجھ جیسے بہت سے لوگوں کی سوچ ہے ۔ ۔ وہ لوگ جو ملک کے حالات دیکھ کر آئے روز کڑھتے ہیں ۔ ۔ اور کہیں نہ کہیں دل کے کسی کونے میں ، ملکی تباہی و بربادی کا ذمہ دار خود کو بھی سمجھتے ہیں ۔ ۔ بقول میر تقی میر
اک عمر دعا کرتے رہے یار کو دن رات
دشنام کے اب اس کے سزاوار ہوئے ہم
ہم دام بہت وحشی طبیعت تھے اٹھے سب
تھی چوٹ جو دل پر سو گرفتار ہوئے ہم
قارئین کرام، یہی دل کی چوٹ ہے جو احساس ندامت میں گرفتار کرتی ہے اور روز صبح کے وقت گرم شاور کے نیچے کھڑے ہونے پر میں خود کو مجرم محسوس کرتا ہوں کیونکہ یہ گیس جو پانی کو گرم کر رہی ہے، اگرچہ میں نےاس کی قیمت ادا کی ہے، لیکن اس کی وجہ سے گیس کمپنی کو 20 فیصد کا نقصان ہو رہا ہے۔ مزید برآں، ہر ایک اس قسم کاشاور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو ختم کر دیتا ہے کیونکہ وہاں مقامی گیس باقی نہیں رہتی۔
میں اپنے بل ادا کرنے کے باوجود ایک ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں
سوتے ہوئے مجرم محسوس کرتا ہوں، کیونکہ ہر رات کی آرام دہ نیند میرے ملک کے گردشی
قرضے میں اضافہ کر رہی ہے جو کہ اکتوبر 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق 2.5 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔
میں اپنی ایئر کنڈیشنڈ کار میں اپنی
شاہراہوں پر 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے، زمین کی تزئین و خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے
ہوئے خود کو مجرم محسوس کرتا ہوں ۔ ۔ کہ میں جانتا ہوں کہ اس انفراسٹرکچراور لگژری روڈ نے اگرچہ اشرافیہ کے لیے زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے، لیکن یہ ایسی چیز نہیں
ہے جس کی خآطر ملک قرضوں کا بوجھ برداشت کرے ۔ شاید ہی کوئی دوسرا ملک جس کی سالانہ فی
کس آمدنی $1,798 ہو اور وہ ہمارے جیسے وسیع اور مہنگے روڈ انفراسٹرکچر پر فخر کر سکے۔
قارئین کرام!
میں اپنے کچن کے لیے امپورٹڈ کوکنگ آئل خریدتے وقت بھی خود
کو مجرم محسوس کرتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ میرے ملک کو اس پر ہر سال 4 بلین ڈالر
خرچ کرنے پڑتے ہیں، جب کہ آئی ایم ایف کی جانب سے 1.2 بلین ڈالر کی معمولی رقم کے
لیے ہمیں اپنی ناک مٹی میں رگڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت یہ ہے کہ ایک زرعی
ملک ہونے کے باوجود ہم تیل پیدا کرنے والی زیادہ فصلیں کیوں نہیں اگاتے، حالانکہ
ہم کیلے، اسٹرابیری اور گنے وغیرہ کی فصل تو بڑی آسانی سے اگالیتے ہیں۔ کیا یہاں پس پشت کوئی مافیا ہے جو ایسا نہیں ہونے دیتا؟؟ خدا ہی جانے !!
لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ !!
ہمیں آخر اب تک صحیح ترجیحات کا کیونکر پتہ نہیں چل سکا ۔ ۔ آخر کیوں ہمیں صحیح ترجیحات پر توجہ دینے والا لیڈر نہیں ملا؟
خیر جواب ندارد ۔ ۔ !!
جب میں اپنے گھر کی جانب دیکھتا ہوں، جو وسیع سڑکوں، کھجور کے درختوں، ایمبیڈڈ بجلی کے تاروں، پارکس اور شاپنگ مالز کے ساتھ ایک نئے رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا حصہ ہے تو میں مجرم محسوس کرتا ہوں۔ کہ میں جانتا ہوں کہ میرا سکون اور انداز قیمتی زرعی اور باغات کی زمین کو ہڑپ کر رہا ہے اور مینوفیکچرنگ جیسے متبادل کاروبار میں پیسہ لگانے کے بجائے ہر ایک پلاٹوں میں سرمایہ داری کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ ۔ ۔ جبکہ اول الذکر میں سرمایہ کاری کرنے سے روزگار پیدا ہوتا اور ڈالر پر ہمارا انحصار کم ہوتا۔۔
میں اپنی جاپانی کار چلاتے ہوئے مجرم محسوس کرتا ہوں، یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ یہاں تک کہ اس کے مقامی طور پر بنائے جانے کے دعوے کیے جاتے ہیں، اس کے 70 فیصد سے زیادہ اجزاء درآمد کیے جاتے ہیں، جس پر ملک ہر سال 2.9 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ ہماری آزادی کے 76 سالوں میں یہ کیوں ممکن نہیں ہو سکا کہ ہم اپنی گاڑی خود بنا سکیں۔
اور تو اور قارئین کرام ! اس غریب ملک کے اعلیٰ سول اور فوجی افسروں کے پرتعیش دفاتر دیکھ کر مجھے بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ
معزز قارئین ! میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میں
اپنے آپ کو مجرم محسوس کرتا ہوں کہ میں نے آنے والی نسل کو اس ملک کے
مستقبل پر یقین رکھنے اور ہجرت نہ کرنے کے لیے گمراہ کیا ہے۔ میں اب بھی سب کو یہی پیغام دوں گا کہ ایمانداری سے کام کریں
اور محنت کریں تاکہ یہ ملک عظیم بن سکے۔
میں حیران ہوں کہ ہمیں اپنے 76 سالوں میں ایسا لیڈر کیوں نہیں ملا جس نے ہمیں کہا کہ قدرتی گیس کا استعمال اس رفتار سے نہ کیا جائے جس رفتار سے ہم نے کیا اور پالیسیاں بنائیں کہ گیس اور تیل کے امکانات کو پرکشش بنا کر نئی دریافتوں سے بدلتے ہوئے گیس فیلڈز کو تبدیل کیا جائے۔
میں حیران ہوں کہ ہمیں ایسا لیڈر کیوں نہیں ملا جو بجلی چوری کو روکے، چاہے اس کے اقدامات سیاسی طور پر غیر مقبول کیوں نہ ہوں۔
جس نے اس بات کو یقینی بنایا ہو کہ ہماری ترسیل کی صلاحیت کو پیداواری صلاحیت میں بیک وقت شامل کیا جائے گا ۔
جس نے ان نئے پاور پلانٹس اور انڈسٹریز میں بھاری سرمایہ کاری کرنے سے پہلے فائدے کا مناسب تجزیہ کیا ہو، جو غلط جگہ یا ایندھن کے غلط انتخاب کی وجہ سے اب سفید ہاتھی بن گئے۔
میں حیران ہوں کہ ہمیں ایسا لیڈر کیوں نہیں ملا جس نے
تعلیم اور صحت کو ترجیح دی ہو اور بتایا ہو کہ ہم موٹر ویز اس وقت بنائیں گے جب
ہماری پڑھی لکھی اور صحت مند افرادی قوت ادھار کے پیسوں پر تعمیر کرنے کے بجائے اس
کی ادائیگی کے لیے اتنی کمائی کرے گی۔
مجھے اسی طرح یہ بھی افسوس ہے کہ ہم بطور فرد اور بحیثیت
قوم اپنے وسائل سے باہر رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ کاش میں اپنے 'پرانے' پاکستان میں
رہتا جہاں میں اپنے نہانے کا پانی ڈرم میں گرم کرکے، پنکھے کے نیچے پسینہ بہاتا،
بغیر ڈیوائیڈر کے ایک ہی سڑک پر اپنی بیٹ اپ گاڑی چلاتا، مقامی سرسوں کے تیل میں
پکا ہوا کھانا کھاتا۔ اور اسپارٹن کے دفاتر میں فوجی اور سول دونوں سینئر افسران
کا دورہ کرتا۔
کم از کم میں بنگلہ دیش اور بھارت کو ہم سے آگے بڑھتے اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ دیکھ کردنیا کی نظر میں ذلیل تو نہ کیا جاتا ۔ ۔
کم از کم اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اپنی شاہراہیں اور پبلک پارکس تو گروی نہ رکھنے پڑتے، اپنی جوہری اور دفاعی صلاحیت کا تو سودا نہ کرنا پڑتا ۔
میں ایک گرم پسینے سے شرابور کمرے میں سوتا ہوا ایک خوش
آدمی ہوتا لیکن اگلی صبح اپنے سر کو اونچا رکھنے کے قابل ہوتا۔ اور یہ وہ صورت ہوتی کہ بقول شاعر:
ہمارا خلُوص شہرِ منافقت کی گلیوں میں
شکستہ پَا سہی، سر اُٹھا کے گزرے گا