قارئین کرام !
عاصیہ مسیح کا کیس پچھلے کچھ مہینوں سے بہت ہی گرم موضوع رہا ہے اور ہر عام و خاص کا موضوع بحث رہ چکا ہے ۔ ۔ جب سے سپریم کورٹ نے اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے منظور کیا ہے یہ ایک بار پھر سے سوشل میڈیا ہر ایک کی زبان زد عام ہو گیا ہے ۔ ۔
اس کیس کا ایک ہلکا سا جائزہ لیتے ہیں اور کچھ اندر کی باتیں بھی بتاتے ہیں ، واضح رہے یہ تمام باتیں اخبارات سوشل میڈیا پر جاری تمام بیانات اور دیگر معتبر جگہوں سے حاصل کی گئ معلومات کا نچوڑ ہیں ۔ ۔
تو قارئین کرام معاملے کی شروعات تب ہوئ جب عاصیہ مسیح نے جون 2009 میں کام کے دوران ایک خاتون سے جھگڑتے ہوۓ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ہمارے نبی سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان عالی میں توہین آمیز جملے استعمال کیے تھے
جس کی بنا پر آسیہ ملعونہ کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ دائر کیا گیا اور اسی جرم کی پاداش میں عاصیہ کو 2010 میں لاہور کی ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہی جرم ثابت ہونے پر اس کی سزائے موت کو برقرار رکھا ، واضح رہے کہ عاصیہ ملعونہ کے شوہر کو عدالت میں جب انجیل مقدس پر قسم اٹھوا کر عاصیہ کے حق میں گواہی دینے کا کہا گیا تو اس کے شوہر نے عاصیہ ملعونہ کے حق میں گواہی دینے سے فوراً انکار کر دیا
جس عورت کے حق میں گواہی دینے سے اس کا اپنا شوہر انکار کر چکا اس عورت کے گنہگار ہونے میں کیسا شبہ باقی رہتا ہے ۔ ۔
بہرحال
خان صاحب کی حکومت آتے ہی نہ جانے سپریم کورٹ کو کیا سوجھی کہ اچانک 9 سال بعد عاصیہ کا کیس سماعت کے لیے منظور کر لیا ۔ ۔ صرف یہی نہیں بلکہ آناً فاناً ایک ہی پیشی کے بعد کیس کا نتیجہ بھی سنا دیا گیا ، ساتھ ہی ساتھ آسیہ کے خلاف 2009 میں کیس دائر کرنے والے مدعی قاری محمد سالم کو کمرہ عدالت میں گواہی کے لیے جانے سے بھی روک دیا گیا۔ ۔
عاصیہ کے خلاف کیس لڑنے والے وکیل صاحب کا کہنا تھا کہ ”عاصیہ کے وکیل کو دلائل دینے کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت دیا گیا جبکہ ہمیں فقط 20 منٹ دیے گۓ نہ بس یہ بلکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ساری سماعت کے دوران ملعونہ کی وکالت کرتے رہے “ ۔ ۔ یہ تمام باتیں عوام الناس کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہیں کہ کہیں عاصیہ کا فیصلہ کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ میں آ کر تو نہیں دیا گیا ۔ ۔
واضح رہے کہ یورپین یونین اور عیسائیوں کے پوپ نے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا ہوا ہے کہ کسی بھی قیمت پر آسیہ ملعونہ کو رہا کرکے یورپ کے حوالے کیا جائے
اب قصہ دیرینہ یہا ں آ پہنچا ہے کہ ایک بار پھر سے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 29 جنوری کو آسیہ ملعونہ کیس کی سماعت کرے گا سپریم کورٹ نے توہین رسالت ﷺ کیس میں آسیہ ملعونہ کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل سماعت کیلئے مقرر کی ہے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کرے گا ، ان کے ساتھ بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہرعالم میاں خیل شامل ہیں
جسٹس آصف سعید کھوسہ غازی ممتاز قادری کے عدالتی قتل کا فیصلہ دینے والے بنچ میں شامل تھے، اور مشہور ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ سرائیکی شیعہ ہیں، جبکہ بنچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسی بھی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے متعصب رافضی کے طور پر مشہور ہیں
سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 31 اکتوبر کو توہین رسالت ﷺ کی ثابت شدہ مجرمہ آسیہ ملعونہ کو فقط شک کا فائدہ دے کر سزائے موت سے بری کردیا تھا عدالت نے بہانہ بنایا کہ گواہوں کے بیانات میں تضادات ہیں مدعی قاری محمد سالم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جو سماعت کے لئے بالآخر مقرر کی گئی ہے
واضح رہے کہ آسیہ ملعونہ کو رہا کرنے کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک پاکستان ، دوسر مذہبی سیاسی پارٹیوں اور دیگر کئ تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تھا، جس کی وجہ سے گزشتہ برس نومبر میں ٹی ایل پی کے قائدین اور ہزاروں کارکنان کو حراست میں لیا گیا
جیل میں پولیس کی حراست کے دوران تحریک لبیک پاکستان سے تعلق رکھنے والے 87 سالہ بزرگ عالمِ دین مفتی یوسف سلطانی بھی شہید ہوگئے تھے ، آسیہ ملعونہ کے معاملے پر نرم گوشہ رکھوانے کے لیے دوران حراست علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری پر بھی تشدد کی مصدقہ اطلاعات سننے کو آرہی ہیں ۔ ۔
اب سوال یہ ہے کہ خادم حسین رضوی اور تحریک لبیک کے باقی قائدین کے جیل میں ہوتے ہوۓ اگر عاصیہ کو رہا کیا گیا تو کیا پھر سے پہلے جیسی صورتحال بنے گی یا خاموشی برقرار رہے گی ۔ ۔ یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن معاملہ بہت سنگین ہے عوام کے مشتعل ہونے کے امکانات اب بھی بہت ہیں ۔ ۔
رب تعالی خیر و آفیت کا معاملہ فرماۓ
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ ۔