ارشاد رانجھانی کا قتل اور ہمارا رویہ

0
قدرت کا قانون بھی کتنا عجب ہے کہ کسی کو ظالم بناتا ہے ، کسی کو مظلوم ، پھر دونوں کو دنیا نامی اس جنگل میں کھلا چھوڑ دیتا ہے یوں دونوں کا ایک دوسرے سے ٹکراؤ ہوتا ہے اور پھر آخر میں وہی سب ہوتا ہے جو ارشاد رانجھانی نامی شخص کے ساتھ حال ہی میں ہوا ۔ ۔ ۔

قارئین کرام
ہمارا ملک مملکت خداداد پاکستان جہاں اندھی نگری اور چوپٹ راج ہے ۔ ۔ ۔ یہاں پیسے والے لوگوں  کا جو دل چاہتا ہے وہ دن دیہاڑے سرعام بھرے مجمعے میں کسی مظلوم کو گولیوں سے چھلنی کردیتے ہیں اور بیچارہ مظلوم تڑپتے ، بلکتے ، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اپنی جان دے دیتا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مقتدر حلقوں اور اعلی حکام کے کان پر پھر بھی جوں تک نہیں رینگتی ۔ ۔ بلکہ اگر بدقسمتی سے عوام کے دباؤ میں آ کر کیس فائل کر بھی لیا جاۓ تو مظلوم کو دہشتگرد اور تخریب کار قرار دے کر اس کے قتل پر من گھرٹ تاویلیں پیش کی جاتی ہیں ، اور مظلوم کو دہشتگردی میں ملوث ثابت کر کے اس کے قتل کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور قاتل کو بچ نکلنے کا راستہ دے کر اپنی جیب گرم کر لی جاتی ہے ۔ ۔
یہ دستور ہمارے دیس کا بڑا پرانا چلا رہا ہے جبھی تو شاعر نے کہا ہے کہ

مل جاتے ہیں قاتل کو طرف دار ہمیشہ
مقتول کو سچ ہے کہ حمایت نہیں ملتی

المیہ یہ بھی ہے ہم سندھی لوگوں کا کہ ہم اپنے حق کے لیے نہ تو خود آواز بلند کرتے ہیں نہ ہی ایسے اسمبلی ممبر چنتے ہیں کہ جو ہمارے حق میں آواز بلند کر سکیں ۔ ۔ گویا ہم تو گونگے ہیں ہی لیکن ہمارے اسمبلی ممبرز کی زبانوں میں بھی آبلے پڑے ہوۓ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والی وفاقی حکومت کی طرف سے سندھیوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔

ارشاد رانجھانی شہید واحد شخص نہیں جس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہو ، ایسے بہت سے واقعات کو یہ قوم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے ، سندھی قوم کو دیوار سے لگانے کے لیے بہت بڑی سازشیں رچائ گئ ہیں اور یہ اب کی نہیں بلکہ انگریز دور سے چلی آنے والی سازشیں ہیں ۔ ۔ یہاں جان بوجھ کر جہالت پھیلائ گئ عوام الناس کو جدید تعلیم حاصل کرنے سے کئ طریقوں سے روکا گیا ، ان میں کاپی کلچر کو فروغ دے کر ان کی ذہنی صلاحیتوں کو کمزور کیا گیا انہیں فقط کنویں کا مینڈک بنا کر رکھا گیا ، اگر بدقسمتی سے کوئ اس صورتحال اور اس سازش کو سمجھنے میں کامیاب ہوا اور اپنی قوم کے حق کے لیے آواز اٹھانے لگا تو اسے سڑکوں پر سرعام گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ ۔ ۔
المیہ یہ بھی ہے کہ سندھی قوم اب اس قدر دبائ جا چکی ہے اب وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا تو درکنار اپنے مقتول کے لیے انصاف مانگنے سے بھی کتراتی ہے ۔ ۔ اگرچہ شہید ارشاد رانجھانی کے لیے بہت سے پلیٹ فارم پر آواز اٹھائ گئ ، بڑے لیولز پر احتجاج کیے گۓ لیکن میری نظر میں یہ سب پھر بھی ناکافی ہے ۔ ۔ ان احتجاج میں چند آرگنائزیشنز اور تنظیموں کے علاوہ باقی سب سندھی کہاں ہیں ۔ ۔ ۔ ارشاد رانجھانی کے انداز قتل کو دیکھا جاۓ تو پورے پاکستان کا آواز اٹھانا حق بنتا تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوا کیونکہ اس بار مرنے والا ایک سندھی تھا ۔ ۔
بہرحال اب بہت ہوا ، سندھ میں بسنے والی سندھی قوم کو اب آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی ، اب جذبہ خودداریت پیدا کرنا کوگا ، اب انہیں بیدار ہونا ہوگا وگرنہ کل کو پھر کوئ ارشاد رانجھانی اسی طرح سڑک پر بے یار و مددگار زندگی اور موت کی کشمکش میں تڑپ رہا ہوگا

اور اس سب کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا جاۓ ، دوسرے کی مشکل کو اپنی مشکل سمجھا جاۓ ، کیونکہ عین ممکن ہے جو حادثہ آج کسی اور کے ساتھ ہورہا ہے وہ کل کو آپ کے ساتھ ہو جاۓ دوسرے کی مشکل میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ کل آپ کسی مشکل میں پھنسیں تو آپ کے ساتھ بھی کوئ کھڑا ہوسکے آپ کے لیے بھی کوئ آواز بلند کرسکے ۔ ۔

یہ سب باتیں شاید ایسے سمجھ نہ آئیں ، اس لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ کہا جاتا ہے کہ

ایک چُوہا کِسان کے گھر میں بِل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کِسان اور اُس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں، چُوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے۔

خوب غور سے دیکھنے پر اُس نے پایا کہ وہ ایک چُوہےدانی تھی۔ خطرہ بھانپنے پر اُس نے گھر کے پچھواڑے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چُوہےدانی آ گئی ہے۔

کبوتر نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا ؟ مجھے کون سا اِس میں پھنسنا ہے؟
مایوس چُوہا یہ بات مُرغ کو بتانے گیا۔

مُرغ نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ، جا بھائی جا، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔

مایوس چُوہے نے دیوار پار جا کر بکرے کو یہ بات بتائی، اور بکرا ہنستے ہنستے لُوٹ پُوٹ ہونے لگا۔

اُسی رات چُوہےدانی میں كھٹاك کی آواز ہوئی، جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا۔
اندھیرے میں اُس کی دم کو چوہا سمجھ کر کِسان کی بیوی نے اُس کو نکالا اور سانپ نے اُسے ڈس لیا۔

طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بُلوایا، حکیم نے اُسے کبوتر کا سوپ پلانے کا مشورہ دیا،
کبوتر ابھی برتن میں ابل رہا تھا

خبر سن کر کسان کے کئی رشتہ دار ملنے آ پہنچے جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مُرغ کو ذبح کیا گیا۔

کُچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی۔ جنازہ اور موت ضیافت میں بکرا پروسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
چوہا دُور جا چکا تھا ... بہت دور۔


لہذا اس کبوتر اور بکرے جیسا سلوک مت کیجۓ اور اگلی بار کسی اور کو مسئلہ پیش آئے، تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سوچیں کہ اگر یہ خطرے میں ہے تو ہم سب خطرے میں ہیں ۔ ۔ ۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ ۔

Post a Comment

0 Comments
Post a Comment (0)
To Top